اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد ’اسلام میں خواتین‘ کے موضوع پر جدہ میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے کہا ہے کہ اگرچہ خواتین کا اسلامی تہذیب کی ترقی میں غیرمعمولی کردار ہے تاہم بہت سے ممالک میں وہ تاحال پسماندہ ہیں جنہیں فیصلہ سازی، قیام امن اور سیاسی و معاشی عمل میں شرکت کے مساوی مواقع دینا ہوں گے۔

‘اسلام میں خواتین کے حقوق اور کردار’ کے موضوع پر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابتدا ہی سے اسلام نے سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت، وراثت میں حصہ داری اور املاک و کاروبار کی ملکیت کے حوالے سے خواتین کے حق کو تسلیم کیا ہے، تاہم بعد میں بہت سے ممالک اور بہت سے شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔

خواتین کی پسماندگی

امینہ محمد نے کہا کہ اس مباحثے میں شرکت ان کے لیے اعزاز ہے کہ ‘ہم اسلام کے اس حقیقی اور خوبصورت تصور کو دوبارہ کیسے اپنا سکتے ہیں کہ فرد کا اندازہ اس کی صنف سے نہیں بلکہ اس کے اعتقادات کی مضبوطی اور اس کے افعال کی سچائی سے کیا جانا چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاریخ کی افسوس ناک حقیقت ہے کہ تکالیف اور بدترین حالات سے عموماً خواتین ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، لیکن معاشروں کے پُرامن نہ ہونے، معاشی بدحالی اور دنیا میں ناانصافی کی کمی کے باعث سبھی کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔

‘غلطیاں درست کرنے کی ضرورت’

امینہ محمد نے خواتین کے حوالے سے کی جانے والی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے تین محاذوں پر یکجا ہو کر اقدامات کرنے کے لیے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام لوگوں خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حق محفوط بنانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنا ہو گا کیونکہ قرآن مجید کا یہی تقاضا ہے۔

تعلیم ایک مشمولہ، ترقی پسندانہ اور سماجی احترام پر مبنی عمل کے ذریعے ایسی مذہبی و ثقافتی اصولوں کے مطابق دی جانی چاہیے جن سے کسی کو نقصان نہ پہنچے اور تمام لوگوں کو اختیار اور وقار میسر آئے۔

افغانستان کے ہنگامی حالات

امینہ محمد نے کہا کہ اسلام واضح طور پر ایسے تمام امتیازی قوانین اور اقدامات کے خلاف ہے جو تعلیم تک رسائی کو روکتے ہیں۔ دنیا بھر میں 130 ملین لڑکیاں سکول جانے سے محروم ہیں اور اس حوالے سے افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کو خاص طور پر بدترین حالات کا سامنا ہے۔ 

افغاں خواتین کو اپنے ملک کے مستقبل کی تعمیر میں مکمل کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے ملک کو خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کی ضرورت ہے۔ طالبان کی کڑی پابندیاں اور ان کی جانب سے لڑکیوں اور خواتین کو خدا کے عطا کردہ حقوق فوری طور پر یقینی بنائے جانے چاہئیں۔

تعلیم جاری رکھنے کے لیے افغان لڑکیاں روانڈا پہنچ رہی ہیں۔

IOM/Robert Kovacs تعلیم جاری رکھنے کے لیے افغان لڑکیاں روانڈا پہنچ رہی ہیں۔

معاشی اختیار اور انصاف

دوسرے محاذ کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے معاشی مواقع اور ان کے حقوق کا فروغ محض شفافیت یا مساوات کا معاملہ ہی نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کے لیے انصاف، ترقی اور خوشحالی کا مسئلہ بھی ہے۔ 

جب لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو اپنے معاشروں اور معیشتوں میں کردار ادا کرنے سے روکا جائے اور افغانستان کی طرح خواتین کے حقوق کو کچل دیا جائے تو پھر سبھی ناکام رہتے ہیں۔ 

خواتین، امن اور سلامتی 

نائب سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امن عمل بشمول گھر سے میدان جنگ تک ثالثی کے جس عمل میں خواتین شامل ہوں وہ زیادہ پائیدار نتائج دیتا ہے۔ یہاں بھی یہ خواتین کو فائدہ پہنچانے کی بات نہیں بلکہ مشمولہ، پُرامن اور خوشحال معاشروں کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کا معاملہ ہے۔ 

تاریخ سے ثابت ہے کہ مسلم معاشرے جامد اور غیرمتغیر ہونے کے بجائے متواتر اور متحرک تبدیلی سے عبارت رہے ہیں۔

اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلمان قانون دان تبدیل ہوتے حالات اور بدلتی اقدار کی مطابقت سے اسلامی قوانین کی تشریحات کرتے رہے ہیں اور مسلم ممالک نے اپنے قوانین میں اصلاحات لا کر خواتین کو معاشی و سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کے وسیع مواقع مہیا کیے ہیں۔ یہ عمل مزید تیز ہونا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔