WEB DESK

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے فرانسیسی صدر کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ ترک صدر ایردوآن نے گزشتہ روز اپنے ایک خطاب میں یورپ میں ’اسلام مخالف‘ اقدامات کو تنقید کا ہدف بنایا تھا۔ انہوں نے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں پر الزام عائد کیا کہ وہ آزادی مذہب کو نہیں سمجھ رہے اور یہ کہ انہیں دماغی معائنے يا علاج کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ پیرس میں ایک 18 سالہ نوجوان کے ہاتھوں ایک استاد کے قتل کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔ اس استاد نے اپنی کلاس میں پیغمبر کے اسلام کے خاکے طلبہ کو دکھائے تھے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ اس سربراہِ مملکت کے بارے میں کیا کہا جائے جو اپنے ہی ملک کے لاکھوں ایسے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک اس لیے روا رکھے ہوئے ہے کہ ان کا مذہب مختلف ہے۔ اسی طرح ترک صدر نے جرمن دارالحکومت برلن میں مارے گئے پولیس چھاپے کی بھی شدید مذمت کی ہے۔ ترک وزارتِ خارجہ نے بھی اس کارروائی کو امتیازی اور تعصبانہ قرار دیا۔

‘دماغی معائنے‘ کا مشورہ
ایردوآن نے ‘دماغی معائنے‘ کی بات فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی مسلم پالیسی کے تناظر میں کہی۔ ترک صدر نے انہیں دماغی معائنے کا مشورہ دیا ہے۔ ایردوآن کی خفگی کی وجہ ماکروں کی وہ تجویز ہے جس میں انہوں نے اپنے ملک کے سیکولر تشخص کو بنیاد پرستانہ اسلامی عقائد سے محفوظ رکھنے کا کہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایردوآن اور ماکروں کے درمیان اختلافات کی فہرست بڑھتی جا رہی ہے۔

رواں مہینے کے دوران فرانسیسی صدر ماکروں نے یہ بھی کہا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جسے عالمی سطح پر بحرانی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماکروں نے یہ بھی واضح کیا کہ رواں برس دسمبر میں سن 1905 میں منظور کیے گئے ایک قانون میں مزید سختی لانے کی ترمیم کا مسودہ پیش کیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا گیا تھا۔ ماکروں نے اسکولوں کی سخت نگرانی اور ایسے مساجد کے کنٹرول کو بہتر کرنا ہے، جنہیں غیر ملکی امداد فراہم ہوتی ہے۔

برلن کی مسجد پر چھاپہ اور ایردوآن
ترک صدر ایردوآن نے جرمن دارالحکومت برلن میں واقع ایک مسجد پر پولیس کے چھاپے کی مذمت کی ہے۔ انہوں اس چھاپے کو تعصبانہ اور اسلاموفوبیا پر مبنی ایک اقدام قرار دیا۔ ایردوآن کا کہنا ہے کہ صبح کی نماز ادا کرتے وقت کیا گیا پولیس آپریشن اس بات کا عکاس ہے کہ یہ امتیازی سلوک اور اسلامو فوبیا پر مبنی تھا۔ ترک صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے اقدامات سے یورپ پھر سے قرونِ وسطیٰ کے تاریک دور کے تھوڑا قریب ہو گیا ہے۔ اپنے ٹوئیٹ میں ترک صدر نے بیان کیا کہ یہ آزادیٴ مذہب کے منافی ہے۔