برطانوی امدادی ادارے آکسفیم کے مطابق امیر ممالک بے گھر ہونے والے پچاس لاکھ شامی باشندوں کی ایک نہایت چھوٹی تعداد کو ہی آباد کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

آکسفیم نے انتیس مارچ کو ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ امیر ترین ممالک کو زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے کا منصوبہ بنانا چاہیے۔ اس چیرٹی ادارے کے مطابق شامی تنازعے کے باعث اس شورش زدہ ملک سے ٤٨ لاکھ افراد مہاجرت اختیار کر چکے ہیں جبکہ امیر ممالک ان میں سے صرف دس فیصد کو ہی آباد کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

آکسفیم کے اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک امیر ممالک نے صرف 67 ہزار ایک سو مہاجرین کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار ’ری سیٹلمنٹ اسپاٹس‘ کا عہد کیا ہے، جو کل شامی مہاجرین کا صرف 1.39 فیصد بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار سن 2013 سے اب تک کی اسٹیڈیز کو سامنے رکھ کر حاصل کیے گئے ہیں۔

آکسفیم کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے، جب عالمی برادری جنیوا مذاکرات میں شامی مہاجرین کے حوالے سے بھی بحث کررہی ہے ۔ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے ان مذاکرات میں امیر ترین ممالک پر زور دیا جائے گا کہ وہ شامی مہاجرین کی امداد کے لیے مزید بڑھ چڑھ کر اقدامات کریں۔

شامی تنازعہ چھٹے سال میں داخل ہو چکا ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے شام سے بے گھر ہونے والے شامی باشندوں کی بڑی تعداد ہمسایہ ممالک ترکی، لبنان، عراق اور اردن میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ یورپ کا رخ بھی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔

آکسفیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہائی ضرورت مند مہاجرین کو آباد کرنے کے حوالے سے جاری کردہ اپیلوں پر مناسب عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے نئے عہد کرے۔ اس رپورٹ کے مطابق امیر ترین ممالک میں سے صرف جرمنی، کینیڈا اور ناروے نے ہی ’اپنے حصے‘ سے بڑھ کر مہاجرین کو پناہ دی ہے۔

امیر ممالک نے ایک فارمولے کے تحت شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی ایک حکمت عملی بنائی تھی، جس کے تحت ہر ملک کی اقتصادیات، رقبے اور آبادی کے تحت مہاجرین کو ان ممالک میں آباد کیا جانا تھا تاہم آکسفیم کے مطابق بہت سے ممالک اس وعدے کو وفا کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔

برطانوی چیرٹی ادارے کے مطابق آسٹریلیا، فن لینڈ، آئس لینڈ، سویڈن اور نیوزی لینڈ نے بھی اپنے حصے سے زائد مہاجرین کو پناہ دی ہے لیکن بیس ممالک ایسے بھی ہیں، جو اپنا عہد پورے کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس فارمولے کے تحت فرانس کو چھبیس ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دینا چاہیے لیکن اس نے ابھی تک صرف ایک ہزار مہاجرین کو پناہ دی ہے۔

آکسفیم نے واضح کیا ہے کہ اس مشکل وقت میں شامی مہاجرین کی مدد کرنے کی ضرورت بڑھ چکی ہے۔ اس ادارے کی سربراہ وینی بیانیما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نعرے بازی کے بجائے شامی مہاجرین کی مدد کے لیے ایکشن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر ترین ممالک اگر چاہیں تو وہ پانچ لاکھ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے سکتے ہیں۔