امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اب تک 44 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ جو بائیڈن 253 اور ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکہ کا صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو الیکٹورل کالج کے 538 میں سے کم از کم 270 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات برائے 2020 کے لیے منگل کو ہونے والی ووٹنگ کے بعد نتائج کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اب تک 44 ریاستوں کے نتائج آ چکے ہیں اور مزید چھ ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔
غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن 253 اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے تین ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی کاملا ہیرس اور ری پبلکن پارٹی کے مائیک پینس نائب صدارت کے امیدوار ہیں۔
امریکہ کے انتخابات میں تقریباً 10 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز نے ارلی ووٹنگ کے ذریعے پہلے ہی حقِ رائے دہی استعمال کر لیا تھا۔ ان ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کے ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوتا۔
عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے 538 الیکٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔ امریکہ کے صدر کا انتخاب ان الیکٹرز کے ووٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔
امریکہ میں صدر کے انتخاب کے لیے کم از کم 270 الیکٹرز درکار ہوتے ہیں۔
ٹرمپ نے دھاندلی کا الزام عائد کیا
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام عائد کيا ہے کہ اليکشن ان سے چرايا جا رہا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی اميدوار نے اپنے ان الزامات کے حوالے سے کوئی شواہد پيش نہ کيے البتہ يہ کہا کہ جن رياستوں ميں اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے، وہاں دھاندلی ہو رہی ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ رات وائٹ ہاؤس ميں بات چيت کرتے ہوئے يہ الزامات لگائے۔ زيادہ تر امريکی نشرياتی اداروں کے مطابق اب تک ڈيموکريٹک اميدوار جو بائيڈن کو 254 اليکٹورل کالج ووٹ حاصل ہو چکے ہيں جبکہ ٹرمپ کو 214۔ اليکشن جيتنے کے ليے کسی بھی اميدوار کو 270 اليکٹورل کالج ووٹ درکار ہوتے ہيں۔ چند رياستوں ميں اب بھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے، جن ميں دونوں اميدواروں کے درميان ووٹوں کا فرق انتہائی معمولی ہے۔
ٹرمپ اپنی کامیابی پر مُصر
صدر ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن گوکہ امریکا کے عہدہ صدارت کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کادعو ی ہے کہ ڈیموکریٹ، امریکی صدارتی انتخابات کو ’چرانے‘ کی کوشش کررہے ہیں۔
٭ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ”جائز “ووٹ گنے گئے تو وہ جیت جائیں گے۔
٭ بائیڈن کو وائٹ ہاوس پہنچنے کے لیے اب صرف 6 الیکٹورل ووٹوں کی ضرورت ہے۔
٭ تمام نگاہیں پینسیلوینیا، جیورجیا اور نیواڈا پر ہیں، جہاں کانٹے کی ٹکر ہے۔
٭ بائیڈن کا کہنا ہے کہ ‘کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوں گے۔‘
’میں جیت گیا ہوں،: ٹرمپ
ایسے وقت جب کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اب بھی جاری ہے، صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ”اگر قانونی ووٹ گنے جائیں تو میں جیت گیا ہوں۔”
انہوں نے انتخابات میں دھوکہ دہی کا اپنا الزام دہرایا تاہم اس سلسلے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ ٹرمپ نے کہا”اگر غیرقانونی ووٹ گنے گئے تو وہ ہم سے الیکشن چھین سکتے ہیں لیکن اگر قانونی ووٹ گنے جائیں تو میں جیت گیا ہوں۔”
صدر ٹرمپ نے پوسٹل بیلٹ پر ایک بار پھر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا”یہ حیران کن بات ہے کہ کیسے پوسٹل ووٹوں کی بڑی تعداد یک طرفہ ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ پوسٹل بیلٹ ایک کرپٹ سسٹم ہے اور یہ کسی ایسے شخص کو بھی بدعنوان بنا دیتا ہے جو فطرتاً بدعنوان نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ پورا مرحلہ نہایت غیر منصفانہ ہے۔‘
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اور بائیڈن دونوں کی انتخابات میں کامیاب ہونے کا دعوی کرسکتے ہیں لیکن ‘مجھے ایسا لگتا ہے کہ حتمی طور پر فیصلہ ججوں کو کرنا ہوگا۔‘
بائیڈن اپنی جیت کے تئیں پراعتماد
ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اپنی ‘فتح‘ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے تھوڑاصبر کرنے کی اپیل کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے فوراً بعد انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ ‘جمہوریت میں بعض اوقات تھوڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس صبر کا پھل اب گورننس کے نظام میں 240 سال بعد مل رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’کوئی بھی ہماری جمہوریت ہم سے نہیں لے سکتا۔‘
ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن نے امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے کا سابق ڈیموکریٹ صدر براک اوباما کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اوباما نے 2008 کے انتخابات میں چھ کروڑ 90 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ جو بائیڈن اب تک سات کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔
جو بائیڈن مشیگن اور ویسکونسن جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی کے بعد وہ ایریزونا میں ڈونلڈ ٹرمپ سے فی الحال آگے ہیں۔ نیواڈا میں بھی بائیڈن نے ٹرمپ پر فی الحال سبقت حاصل کرلی ہے۔
واشنگٹن میں تعینات سفیروں کی امریکی انتخابات پر گہری نظر
امریکہ میں تعینات دنیا کے مختلف ملکوں کے سفیر امریکی صدارتی انتخابات میں گہری دلچسبی لے رہے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں سفیروں کے مشاہدات اور تجزیات کی اپنے اپنے ملکوں میں اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
سن 2020 کے انتخابات کے دوران سفارت کاروں کی الیکشن کو قریب سے دیکھنے اور سفارت خانوں میں اکھٹے ہو کر پارٹیوں کی صورت میں الیکشن کے متعلق تازہ ترین معلومات پر بات چیت کرنے کی روایات کرونا وائرس کے باعث محدود ہو کر رہ گئیں۔
لیکن ان غیر معمولی حالات کے باوجود سفارت کاروں کی الیکشن میں دلچسبی بر قرار رہی اور سفارت کار اپنے آپ کو تازہ ترین صورت حال سے باخبر رکھنے کی کوششیں کرتے رہے۔
واشنگٹن میں آئرلینڈ کے سفیر ڈینئل ملحال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ باہر کی فضا میں سانس لیے بغیر انہوں نے کوشش کی کہ وہ امریکی انتخابات کی بہتر سے بہتر تصویر دیکھ سکیں۔