اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے بتایا ہے کہ صحت بخش خوراک کے حصول پر اٹھنے والے اخراجات 2020 کے مقابلے میں 4.3 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ادارے کا کہنا ہے کہ اس رحجان سے زراعت پر فطری اور انسانی ہاتھوں سے آنے والی تباہی کے اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔اپنی سالانہ شماریاتی رپورٹ میں میں ایف اے او کا کہنا ہے کہ ہر دو طرح کی تباہی سے زراعت کو سالانہ اوسطاً 123 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ عالمی سطح پر سالانہ زرعی پیداوار کا پانچ فیصد ہے۔ 2021 میں زرعی شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد 87 کروڑ یا عالمگیر افرادی قوت کا 27 فیصد تھی۔ تاہم یہ تعداد اِس صدی کے آغاز پر زرعی شعبے میں کام کرنے والوں سے کہیں کم ہے۔اُس وقت ایک ارب لوگ یا مجموعی افرادی قوت کا 40 فیصد زرعی شعبے سے وابستہ تھا۔ ایف اے او کی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ذیلی صحارا افریقہ میں فصل کی کٹائی کے بعد تقریباً 20 فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ دنیا بھر میں کسی جگہ خوراک کا سب سے بڑا ضیاع ہے۔

موٹے اناجوں پر بھارت کی ستائش
دنیا بھر میں غذائی تحفظ اور معیار طے کرنے والی اقوامِ متحدہ کی نے موٹے اناجوں پر بھارت کے معیارات کی ستائش کی ہے۔ اس نے اٹلی کے شہر روم میں اپنے 46ویں اجلاس کے دوران موٹے اناجوں کے عالمی معیارات کو فروغ دینے کی بھارت کی پیش کش کو منظور کر لیا ہے۔ CAC کی جانب سے منظور کیے جانے کے بعد بھارت اس سے متعلق پروجیکٹ دستاویزات کو جمع کرنے اور معیارات سے متعلق مسودے کو تیار کرنے کا کام شروع کر دے گا۔ اس نے 15 موٹے اناجوں سے متعلق جامع معیارات وضع کیے ہیں جن میں 8 کوالٹی پیمانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کی بین الاقوامی اجلاس میں بہت تعریف کی گئی ہے۔ Codex میں فی الوقت موٹے اناج جوار اور باجرے سے متعلق معیارات شامل ہیں۔

کوئلے کی پیداور میں اضافہ
کوئلے کی وزارت نے نومبر 2023 کے مہینے کے دوران مجموعی طور پر کوئلے کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جو کہ 84.53 میٹرک ٹن (عارضی) تک پہنچ گیا ہے، جس نے پچھلے سال کے اسی مہینے کے 76.14 میٹرک ٹن کے اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو کہ 11.03 فیصد کے اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ کول انڈیا لمیٹڈ (سی آئی ایل) کی پیداوار نومبر 2023 کے مہینے میں 8.74 فیصد کی ترقی کے ساتھ بڑھ کر 65.97 میٹرک ٹن (عارضی) ہو گئی ہے جب کہ نومبر 2022 میں یہ 60.67 میٹرک ٹن تھی۔ مجموعی کوئلے کی پیداوار (نومبر 2023 تک) مالی سال 23-24 میں 12.73 فیصد اضافے کے ساتھ 591.28 میٹرک ٹن (عارضی) تک پہنچ گئی ہے جبکہ مالی سال 22-23 میں اسی مدت کے دوران یہ 524.53 میٹرک ٹن تھی۔

مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بہترین کارکردگی
بھارت کے مینوفیکچرنگ کے شعبے نے اس برس نومبر میں اپنی بہترین کارکردگی کے مظاہرے کو جاری رکھا ہے۔ ایسا قیمت کے دباؤ میں خاطرخواہ نرمی اختیار کرنے اور مانگ کو مستحکم کرنے کے سبب ہوا ہے۔ ماہانہ سروے میں کہا گیا ہے کہ مینوفیکچرنگ شعبے کی ٹھوس کارکردگی 2024 میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ سیزن کے اعتبار سے ایڈجسٹ کئے جانے والے S&P گلوبل انڈیا مینوفیکچرنگ پرچیزنگ مینیجر کا اشاریہ اکتوبر میں 55 اعشاریہ پانچ سے بڑھ کر پچھلے ماہ 56 ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلوے نے فریٹ لوڈنگ سے 110007.5 کروڑ روپے کمائے۔
اپریل – نومبر 2023 کے درمیان مجموعی بنیادوں پر، ہندوستانی ریلوے نے 1015.669 ایم ٹی کی فریٹ لوڈنگ حاصل کی جبکہ پچھلے سال کی لوڈنگ 978.724 ایم ٹی تھی، جو پچھلے سال کی اسی مدت کی لوڈنگ کے مقابلے میں تقریباً 36.945 ایم ٹی کی بہتری ہے۔ ریلوے نے پچھلے سال کے 105905.1 کروڑ روپے کے مقابلے میں 110007.5 کروڑ روپے کمائے ہیں جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً 4102.445 کروڑ روپے کی بہتری ہے۔ نومبر 2023 کے مہینے کے دوران، نومبر 2022 میں 123.088 ایم ٹی کی لوڈنگ کے مقابلے میں 128.419 ایم ٹی کی ابتدائی فریٹ لوڈنگ حاصل کی گئی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 4.33 فیصد کی بہتری ہے۔ مال برداری کی آمدنی نومبر 2022 میں 13559.83 کروڑ روپے کے مقابلے میں نومبر 2023 میں 14077.94 کروڑ روپے کی ہوئی، اس طرح گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 3.82 فیصد کی بہتری ہوئی۔
ہندوستانی ریلوے نے نومبر، 2023 کے دوران کوئلے میں 65.48 ایم ٹی، لوہے میں 14.99 ایم ٹی، پگ آئرن اور تیار شدہ اسٹیل میں 5.25 ایم ٹی، سیمنٹ میں 5.58 ایم ٹی (کلینکر کے علاوہ)، کلینکر میں 4.61 ایم ٹی، اناج میں 3.82 ایم ٹی، کھادوں 5.97 ایم ٹی، معدنی تیل میں 4.176 ایم ٹی، کنٹینرز میں 6.91 ایم ٹی اور دیگر بیلنس اشیا میں 8.59 ایم ٹی کی لوڈنگ حاصل کی۔
”ہنگری فار کارگو“ کے منتر کی پیروری کرتے ہوئے انڈین ریلوے نے کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مسابقتی قیمتوں پر خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔ کسٹمر پر مبنی نقطہ نظر اور کاروباری ترقی کے یونٹس کے کام نے جو چست پالیسی سازی کے ذریعے حمایت حاصل کی ہے اس نے ریلوے کو اس اہم کامیابی کے حصول میں مدد فراہم کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔