AMN

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا سے بھوک کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے غذائی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

عالمی یوم خوراک پر اپنے پیغام میں سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ اربوں بچوں، خواتین اور مردوں کو مستقل بنیادوں پر بھوک اور غذائیت کی کمی کا سامنا ہے جو دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کے ساتھ کاروباروں، ماہرین تعلیم، تحقیقی اداروں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا اور غذائی نظام کو مزید موثر، مشمولہ، مضبوط اور مستحکم بنانا ہو گا۔

خوراک کا عالمی دن ہر سال 16 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد غذائی وسائل میں اضافہ کرنا اور خوراک کا تحفط یقینی بنانا ہے تاکہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر مربوط حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔

استعداد اور مساوات کا مسئلہ

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ دنیا بھر کے ان 73 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کی مدد کرنے کے عزم کا دن ہے جنہیں جنگوں، پسماندگی، موسمیاتی تبدیلی، غربت اور معاشی گراوٹ کے باعث شدید بھوک کا سامنا ہے۔ ان میں غزہ اور سوڈان کے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں انسان کے ہاتھوں پیدا کردہ قحط درپیش ہے۔

دنیا میں 2.8 ارب لوگ صحت بخش خوراک کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان میں موٹاپے کا شکار لوگ بھی شامل ہیں اور یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

غذائی نظام پر 2021 میں ہونے والی کانفرنس نے دنیا کو نظام ہائے خوراک میں استعداد اور مساوات کی کمی پر قابو پانے کی راہ سجھائی ہے۔پیداوار میں اضافے کی ترغیب دینے اور غذائیت بھری صحت بخش خوراک مناسب قیمت پر فروخت کرنے کے لیے حکومتوں کو تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھوک اور غذائیت کی کمی کے خلاف جدوجہد کرے اور بہتر زندگی اور بہتر مستقبل کی خاطر خوراک تک رسائی کے حق کو برقرار رکھنے کے اقدامات کرے۔

یونیسف کا ’چھپے قاتل‘ سے بچاؤ کے لیے شفائی غذاء کی اہمیت پر زور
عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ غذائیت والی مخصوص خوراک (آر یو ٹی ایف) کی کمی کے باعث دنیا میں 10 لاکھ بچے شدید جسمانی کمزوری کا شکار اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔جنگوں، معاشی دھچکوں اور موسمیاتی بحران کی وجہ سے کئی ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی بڑی تعداد ‘شدید درجے کی جسمانی کمزوری’ کا شکار ہے۔
یہ غذائی قلت کی بلند ترین سطح ہے اور غذائیت بھری محفوظ خوراک سے محروم اور اسہال، خسرے اور ملیریا جیسی بیماریوں کا متواتر نشانہ بننے والے بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
بچوں کا خاموش قاتل
یونیسف کا کہنا ہے کہ شدید جسمانی کمزوری کا شکار بچے دبلے ہوتے جاتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس طرح ان کی بڑھوتری متاثر ہوتی ہے اور بالآخر وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
‘آر یو ٹی ایف’ خشک دودھ، مونگ پھلی، مکھن، مچھلی کے تیل، چینی اور کئی طرح کے وٹامن اور نمکیات کو ملا کر بنایا جاتا ہے۔ اس سے دنیا بھر میں لاکھوں بچوں میں شدید غذائی قلت سے پیدا ہونے والے جسمانی مسائل پر قابو پایا جا چکا ہے۔
یونیسف میں بچوں کی غذائیت اور بڑھوتری کے شعبے کے ڈائریکٹر وکٹر آگوایو نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران بچوں میں جسمانی کمزوری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانے کے لیے غذائیت کے پروگراموں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں جنگوں، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی مسائل سے دوچار ممالک میں بھی حوصلہ افزا صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔
تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس خاموش قاتل پر قابو پانے اور تقریباً 20 لاکھ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت
یونیسف نے کہا ہے کہ ‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت کے باعث 12 غریب ترین ممالک میں بچوں کو اس غذائیت سے محرومی کا خدشہ ہے۔ افریقی ملک مالی، نائجیریا، نیجر اور چاڈ میں اس کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے یا ختم ہونے کو ہے جبکہ کیمرون، پاکستان، سوڈان، مڈغاسکر، جنوبی سوڈان، کینیا، جمہوریہ کانگو اور یوگنڈا میں اس خوراک کا ذخیرہ آئندہ سال کے وسط تک ختم ہو سکتا ہے۔
افریقہ کے ساہل خطے میں طویل خشک سالی، سیلاب اور بہت کم یا شدید بارشوں کے باعث صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ چکی ہے۔ ان قدرتی آفات کے نتیجے میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور اس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جس کا نتیجہ بچوں میں جسمانی کمزوری کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔
رواں سال مالی میں پانچ سال سے کم عمر کے 300,000 سے زیادہ بچوں کے شدید جسمانی کمزوری کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جہاں جولائی کے آخر تک غذائیت کے پروگراموں کو ‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت کا سامنا تھا۔
چاڈ کی حکومت نے فروری میں خوراک اور غذائیت کے حوالے سے ہنگامی حالات کے نفاز کا اعلان کیا تھا جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 500,000 سے زیادہ بچوں کو امسال شدید جسمانی کمزوری لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ملک کے ایسے صوبوں میں حالات زیادہ خراب ہیں جہاں بڑی تعداد میں پناہ گزین آباد ہیں۔
‘تاخیر کی گنجائش نہیں’
یونیسف کو جسمانی کمزوری کے باعث موت کے خطرے سے دوچار بیس لاکھ بچوں کا علاج کرنے کے لیے 165 ملین ڈالر درکار ہیں۔ ادارے نے اس مقصد کے لیے ‘تاخیر کی گنجائش نہیں’ کے نام سے 2022 میں ایک اقدام شروع کیا تھا جس کا مقصد دنیا بھر میں خوراک اور غذائیت کے بحران پر قابو پانا تھا۔
اس کے بعد ادارے نے غذائیت کے پروگراموں میں اضافہ کرنے اور جسمانی کمزور کا سامنا کرنے والے بچوں کو علاج مہیا کرنے کے لیے 900 ملین ڈالر جمع کیے۔ اس طرح 21.5 ملین بچوں اور خواتین کو ضروری خدمات میسر آئیں جبکہ 46 ملین بچوں کو غذائی قلت کی بروقت تشخیص سے متعلق خدمات تک رسائی ملی۔ اس کے علاوہ 5.6 ملین بچوں کو ان کی زندگی بچانے کے لیے ضروری علاج معالجہ بھی مہیا کیا گیا۔
رواں سال اس اقدام کو مالی وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یونیسف نے بچوں کے لیے ضروری غذائی اجزا کی مقامی سطح پر تیاری کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے تاکہ ہر جگہ اس مسئلے کو شدت اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔
بچوں کے لیے غذائیت فنڈ
یونیسف نے بچوں میں طویل مدتی غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے گزشتہ سال ‘بچوں کا غذائیت فنڈ (سی این ایف) قائم کیا تھا جس میں اسے یونائیٹڈ کنگڈم فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور چلڈرن انویسٹمنٹ فنڈ فاؤنڈیشن کی مدد بھی حاصل رہی۔
اس مسئلے سے بری طرح متاثرہ ممالک میں مقامی اور علاقائی سطح پر بچوں کے لیے مقوی خوراک، غذائی سپلیمنٹ اور ‘آر یو ٹی ایف’ کی تیاری میں مدد دینا بھی ‘سی این ایف’ کے مقاصد میں شامل ہے۔ اس طرح غذائی اجزا کی تجارتی ترسیل میں آنے والے خلل سے بچنے، اشیا کی ترسیل سے ماحول پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دور کرنے اور مواقع و معاشی ترقی میں اضافہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
یونیسف نے کہا ہے کہ مکمل عملدرآمد کے بعد ‘سی این ایف’ سے ممالک کو غذائیت والی خوراک کی دستیابی یقینی بنانے، مالی وسائل کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کو دور کرنے اور ہر جگہ ‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔