نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ملک میں مفاہمت کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کے خلاف اپنی جیت کو ’واضح اور فیصلہ کن‘ قرار دیا ہے۔ انتخابی کامیابی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ وہ بطور صدر ’امریکا کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد‘ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب امریکا کو دوبارہ ’صحت مند‘ بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ جو بائیڈن نے پیر کے روز کورونا وائرس کے وبائی مرض کے خلاف جنگ میں ماہرین کے ایک گروپ کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ مستقبل کی نائب صدر کملا ہیرس کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ وہ امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر ہوں گی۔

امریکا میں تین نومبر کو ہوئے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ سیاستدان اور ماضی میں دو مرتبہ نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن کی کامیابی اس وقت یقینی ہو گئی تھی، جب کل ہفتہ سات نومبر کی رات انہیں صدر کا انتخاب کرنے والے الیکٹورل کالج کے 290 ارکان کے ووٹ حاصل ہو گئے تھے۔ بائیڈن کو اپنی فتح کے لیے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار تھے۔ اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق وہ یقینی طور پر لازمی سے کہیں زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔

اس کے برعکس ان کے ریپبلکن حریف امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تک صرف 214 الیکٹورل ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے حریف امیدوار بائیڈن کی فتح پر اپنے اولین ردعمل یہ ظاہر کیا تھا کہ ابھی مقابلہ ختم نہیں ہوا اور وہ ہارے نہیں ہیں۔

یہ رویہ واضح طور پر صدر ٹرمپ کی طرف سے بائیڈن کی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار تھا۔ ماہرین کے مطابق اس رویے سے ٹرمپ اپنے حامیوں پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی الیکشن ہارے نہیں بلکہ اپنی انتخابی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

امریکا کے دوبارہ متحد ہونے کا وقت
جو بائیڈن نے اپنی فتح کے بعد اولین خطاب میں کہا کہ الیکشن کی وجہ سے امریکی عوام میں واضح تقسیم پیدا ہو گئی تھی، لیکن اب اس داخلی سیاسی تقسیم پر قابو پاتے ہوئے ‘دوبارہ متحدہ ہونے کا وقت‘ آ گیا ہے۔ ساتھ ہی بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ ان کے لیے امریکی صدر کے طور پر فرائض انجام دینا بڑے فخر کی بات ہو گی۔

ابائیڈن کے مطابق، ”اب وقت آ گیا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا کی عزت اور وقار بحال ہونا چاہییں۔‘‘ ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن کی فتح یقینی ہو جانے کے بعد امریکا کے مختلف شہروں میں ان کے حامیوں نے جشن منانے شروع کر دیے تھے۔

دنیا کے زیادہ تر ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت نے جو بائیڈن کی جیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے ’ایک نئے آغاز‘ کی امید ظاہر کی ہے۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اب تحفظ ماحول، کورونا وائرس اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے سلسلے میں امریکی تعاون میں اضافے کی امید ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے نکل گئے تھے۔ علاوہ ازیں انہوں نے متعدد مرتبہ عالمی ادارہ صحت اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ چین اور کئی یورپی ممالک کے ساتھ ان کے دور اقتدار میں سفارتی تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جو بائیڈن کو مبارکباد دیتے ہوئے افغان امن عمل کے تسلسل کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

امریکی الیکشن: جوبائیڈن کی فتح کا یورپ کی طرف سے خیرمقدم

متعدد یورپی رہنماؤں نے جو بائیڈن کو امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے مستقبل میں مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ جرمن چانسلر میرکل نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ وہ جو بائیڈن کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے یاد دہانی کرائی کہ ابھی بہت سے مسائل ہیں، جن سے فوری طور پر نمٹنا ضروری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوست اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ امریکا برطانیہ کا اہم ترین حلیف ملک ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین نے کہا ہے کہ وہ جو بائیڈن کی قیادت میں دو طرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنائیں گی۔