از: عندلیب اختر

دو ہزار پندرہ میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پائیدار ترقی کے سترہ اہداف کی منظوری دی تو دنیا نے ایک پُرامید راستے پر قدم رکھا۔ غربت کا خاتمہ، سب کے لیے معیاری تعلیم، صحت کی مساوی سہولتیں، ماحولیات کا تحفظ، صنفی مساوات اور پائیدار معیشت جیسے عزائم پر مشتمل یہ ایجنڈا انسانی ترقی کا ایک نیا عالمی معاہدہ تھا۔ لیکن آج جب اس ایجنڈے کو اپنائے ہوئے تقریباً ایک دہائی گزر چکی ہے، اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ترقی کی اس راہ پر رفتار سست، وسائل محدود اور عالمی اتفاقِ رائے کمزور پڑ چکا ہے۔

دو ہزار انیس تک دنیا میں اوسط عمر میں پانچ سال کا اضافہ ہو چکا تھا لیکن کووڈ-انیس کی عالمی وبا نے یہ پیش رفت دو سال پیچھے دھکیل دی۔ تعلیم کے میدان میں اگرچہ ایک سو دس ملین بچوں نے اسکولوں میں داخلہ لیا، لیکن دو سو بہتر ملین بچے تاحال تعلیم کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ یہی نہیں، دنیا کی دس فیصد آبادی آج بھی شدید غربت میں زندگی گزار رہی ہے، جب کہ ایک ارب سے زائد افراد کچی بستیوں یا غیررسمی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں صاف پانی، نکاسی آب اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ ترقی کا سفر نہ صرف سست روی کا شکار ہے بلکہ کچھ شعبوں میں تو تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ صرف اٹھارہ فیصد اہداف ایسے ہیں جن کی تکمیل ممکنہ حد تک قریب دکھائی دیتی ہے۔ سترہ فیصد اہداف پر جزوی پیش رفت ہو رہی ہے، جبکہ پچاس فیصد سے زائد اہداف پر یا تو کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی یا صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آج بھی آٹھ سو ملین افراد شدید غربت، موسمیاتی خطرات اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ دو ہزار چوبیس میں ہر بارہ منٹ کے وقفے سے کوئی ایک انسان کسی جنگ یا تنازعے میں مارا گیا، جو دنیا کے بگڑتے ہوئے انسانی اور سیاسی حالات کی ایک تکلیف دہ تصویر ہے۔

تاہم یہ سچ ہے کہ مکمل ناکامی کی تصویر بھی درست نہیں۔ سال دو ہزار پندرہ سے دو ہزار تئیس کے درمیان زچہ و بچہ کی شرح اموات میں پندرہ فیصد کمی آئی ہے، جب کہ ملیریا کی روک تھام کے اقدامات سے دو اعشاریہ دو ارب افراد کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ چوّن ممالک نے استوائی خطے کی کم از کم ایک بیماری کا خاتمہ کر لیا ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف اعداد نہیں بلکہ ان لاکھوں انسانوں کی زندگی کی کہانی ہے جنہیں غربت سے نجات ملی، جنہیں علاج ملا اور جنہیں زندگی کی نئی امید نصیب ہوئی۔

اس رپورٹ میں ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے: معلومات اور اعداد و شمار کی اہمیت۔ دو ہزار پندرہ میں جب ترقیاتی ایجنڈا شروع ہوا، اس وقت صرف ایک تہائی اہداف سے متعلق درست معلومات دستیاب تھیں۔ آج ستر فیصد اہداف پر نگرانی ممکن ہو چکی ہے، لیکن کئی اب بھی ایسے ہیں جن پر پیش رفت کی پیمائش کے لیے خاطر خواہ نظام موجود نہیں۔ یہ کمزوریاں فیصلہ سازی کو غیر مؤثر بناتی ہیں اور ترقیاتی کوششوں کو ماند کر دیتی ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے زور دیا ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام میں اصلاحات کے بغیر پائیدار ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ترقی پذیر ممالک کو درکار مالی وسائل میں اس وقت چار ٹریلین ڈالر کی کمی ہے اور عالمی سطح پر جغرافیائی تناؤ نے کثیرفریقی نظام کو کمزور کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم کا حالیہ اجلاس، جو نیویارک میں جاری ہے، دنیا کے سامنے ایک موقع ہے کہ وہ نئے عزم، اجتماعی ارادے اور مؤثر عمل کے ساتھ ترقی کی راہ پر واپس آئے۔

لی جُنہوا جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مایوسی کا لمحہ نہیں بلکہ ایک نئی حکمتِ عملی اور اجتماعی عمل کی ضرورت کا اشارہ ہے۔ دنیا کے پاس وسائل ہیں، علم ہے، ٹیکنالوجی ہے، شراکت داری ہے، صرف سیاسی عزم اور اخلاقی قیادت درکار ہے۔ اب وقت ہے کہ دنیا ایک ہو کر پائیدار ترقی کے ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دے، جو ۲۰۱۵ میں پوری انسانیت نے مل کر دیکھے تھے۔