Last Updated on: 9 December 2025 1:43 PM


عندلیب اختر

دنیا کی کوئی ثقافت ایسی نہیں جہاں چائے نے انسانی زندگی کے روزمرہ لمحوں میں خوشبو نہ گھولی ہو۔ صبح کی تازگی ہو، دوپہر کی تھکن، شام کی محفل یا سرد رات—چائے ہمیشہ انسان کے احساسات کے ساتھ جڑی رہی ہے۔ اس کی خوشبو جہاں ذہن کو سکون دیتی ہے، وہیں اس کا گرم گھونٹ انسان کو جوڑنے، بات چیت بڑھانے اور ماحول بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر چائے صرف ایک مشروب نہیں، ایک طرزِ زندگی ہے، اور اس روایت میں بھارت ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ دارجلنگ کی مہک، آسام کا گہرا ذائقہ اور نیلگیری کی خوشگوار لطافت—یہ سب بھارتی چائے کو دنیا میں ایک منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔


بھارت اس وقت دنیا کے بڑے چائے پیدا کرنے والے اور برآمد کنندہ ممالک میں شامل ہے، اور عالمی منڈی میں بھارتی چائے کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ صحت سے آگاہ نئے صارفین، پریمیم لائف اسٹائل مارکیٹس، اور نئے ذوق رکھنے والی نوجوان نسل بھارتی چائے کی متنوع اقسام کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی چائے تجارت میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، اور حکومت اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چائے کی صنعت کو جدید، شفاف اور عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے سرگرم ہے۔


مرکزی وزیر تجارت و صنعت جناب پیوش گوئل نے حال ہی میں نئی دہلی میں“نیشنل کانفرنس آن سیف ٹی پروڈکشن”سے خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت کو ایک نئی جہت دی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اگرچہ پہلے ہی دارجلنگ، آسام اور نیلگیری جیسی عالمی شہرت یافتہ چائے کا گھر ہے، لیکن وقت آگیا ہے کہ ملک بدلتے ہوئے عالمی رجحانات کے مطابق مزید نئی ”سگنیچر“ چائے تیار کرے۔ ان کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ اب ایسی مصنوعات چاہتی ہے جو نہ صرف منفرد ہوں بلکہ صحت، جدت اور پائیداری کے تقاضوں پر بھی پوری اتریں۔


وزیر موصوف نے زور دے کر کہا کہ بھارت کو اپنی روایتی طاقت سے آگے سوچتے ہوئے ایسے امتزاج بنانے ہوں گے جو آج کے صارفین کے ذوق کے مطابق ہوں۔ دنیا پریمیم اور ذائقے میں منفرد چائے کے تجربات کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں ہربل، فلیورڈ، آرگینک اور صحت بخش مشروبات کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر بھارت اس سمت درست قدم اٹھائے تو نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہو گا بلکہ عالمی سطح پر بھارتی چائے کی ساکھ بھی مزید مضبوط ہوگی۔
جناب گوئل نے محققین اور سائنسدانوں کو خصوصی طور پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی متنوع زرعی اور موسمی صلاحیتیں ایسے مواقع فراہم کرتی ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر نئی اقسام متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔ جدید زراعت، مسلسل تحقیق، نت نئے تجربات اور عالمی معیار کی پیکجنگ ایسے عوامل ہیں جو اس صنعت کو نئی منازل سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق جب بھارت منفرد اور جدت پر مبنی مصنوعات تیار کرے گا تو عالمی خریدار نہ صرف زیادہ اعتماد ظاہر کریں گے بلکہ چھوٹے کسانوں اور پروڈیوسرز کو بہتر قیمتیں بھی مل سکیں گی۔


کانفرنس میں وزیر نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ بھارت ہر سال تقریباً 255 ملین ٹن چائے برآمد کرتا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف برآمدی آمدنی اور تجارتی شناخت میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ لاکھوں کسانوں اور کارکنان کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت کی کوششیں خاص طور پر چھوٹے کسانوں اور چائے مزدوروں کی بھلائی کے لیے مرکوز ہیں۔ ”چائے سہیوگ“ ایپ اور 1000 کروڑ روپے کے خصوصی پیکیج اسی وژن کا حصہ ہیں، جو کسانوں کو بہتر قیمت اور جدید سہولیات تک رسائی فراہم کر رہے ہیں۔
جناب گوئل نے چائے کی سپلائی چین میں مکمل ٹریس ایبلٹی پر خصوصی زور دیا۔ ان کے مطابق چائے کی عالمی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر بیچ کا پورا ریکارڈ ہو اور اس میں ملاوٹ یا کم معیار کی گنجائش نہ رہے۔ بلاک چین جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی اس مقصد کے لیے نہایت موزوں ہے، جو شفافیت، حفاظت اور اعتماد کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ اس طرح نہ صرف عالمی مارکیٹ میں بھارتی چائے کے معیار کا ثبوت فراہم ہو گا بلکہ خریداروں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔


وزیر نے یہ بھی کہا کہ چائے کی صنعت کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ماحول دوست اور پائیدار طریقے اپنانے ہوں گے۔ ڈرپ اریگیشن، بایوڈیگریڈیبل پیکجنگ، اور جدید موسمیاتی ٹیکنالوجیز چائے کے باغات کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ویلیو ایڈڈ، برانڈیڈ اور پیک شدہ چائے کی برآمدات بڑھانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، تاکہ بھارت صرف خام مال برآمد کرنے والا ملک نہ رہے بلکہ مکمل پریمیم مصنوعات کا عالمی مرکز بنے۔


گوئل نے یہ بھی کہا کہ چائے صرف ایک زرعی پیداوار نہیں بلکہ ایک سماجی روایت اور ثقافتی علامت بھی ہے، جو خاندانوں اور کمیونٹیوں کو جوڑتی ہے۔ چائے کے پروڈکشن ایریاز میں بچوں کے بہتر مواقع، تعلیم، صحت اور سماجی ترقی پر سرمایہ کاری بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی بہترین چائے پیدا کرنا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جدید قصہ گوئی (اسٹوری ٹیلنگ) آج کی مارکیٹنگ کا اہم حصہ ہے۔ اگر بھارتی چائے کی پیکجنگ اور
برانڈنگ میں اس کے ذائقے، مٹی، محنت اور انفرادیت کی کہانیاں شامل کی جائیں تو عالمی خریداروں کے ساتھ اس کا تعلق مزید مضبوط ہو گا۔ ساتھ ہی، جدید لیبارٹریز، ٹیسٹنگ آلات اور عالمی معیار کی جانچ سہولیات چائے کے معیار کو مزید بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔


حکومت، صنعت، محققین اور کسانوں کو ایک ٹیم کی طرح کام کرنا ہوگا، تاکہ چائے کا ہر کپ نہ صرف بھارت کی وراثت کی نمائندگی کرے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی بڑھتی ہوئی طاقت، اعتماد اور قابلیت کی بھی تصویر پیش کرے۔ چائے کا شعبہ ”وِکسِت بھارت 2047“ کے سفر میں ایک اہم کردار ادا کرے گا، اور بھارتی چائے دنیا بھر میں اپنی خوشبو اور معیار کے ذریعے نئی تاریخ رقم کرتی رہے گی۔