AMN / NEW DELHI

لوک سبھا میں آپریشن “سِندور” پر خصوصی بحث کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے اس الزام کو قطعی طور پر مسترد کر دیا کہ بھارت نے امریکہ کے دباؤ میں پاکستان کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ دنیا کے کسی بھی لیڈر نے بھارت سے آپریشن روکنے کو نہیں کہا بلکہ پاکستان خود ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا تھا کہ وہ مزید نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے نائب صدر سے گفتگو میں بھارت نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر پاکستان حملہ کرے گا، تو جواب سخت اور فیصلہ کن ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ “آپریشن سندور” پہلگام دہشتگرد حملے کے ردعمل میں کیا گیا اور بھارت نے پاکستان کے اندر گہرائی میں جا کر دہشتگرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے دنیا کو دکھا دیا کہ اب وہ پاکستان کی ایٹمی دھمکیوں سے نہیں ڈرے گا اور دہشت گردی کا جواب اپنے انداز میں دے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت اب دہشتگرد تنظیموں اور ان کو پناہ دینے والی حکومتوں کے درمیان فرق نہیں کرتا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کارروائی مکمل طور پر “میک ان انڈیا” ہتھیاروں جیسے ڈرون اور میزائلز سے کی گئی، جنہوں نے پاکستان کی فوجی صلاحیتوں کی کمزوری کو ظاہر کر دیا۔ انہوں نے کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے نہ فوج کی بہادری کی حمایت کی اور نہ ہی قومی سلامتی پر کوئی واضح حکمتِ عملی پیش کی۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے آپریشن کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ 7 مئی کی رات 1:04 سے 1:24 بجے کے درمیان آپریشن “سندور” انجام دیا گیا، جس میں پاکستان کے اندر 100 کلومیٹر گہرائی میں موجود 9 دہشتگرد ٹھکانے تباہ کیے گئے اور 100 سے زائد دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔ شاہ نے کہا کہ یہ کارروائی مکمل احتیاط اور درستگی کے ساتھ کی گئی اور کسی عام شہری کو نقصان نہیں پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی، جن میں مقامی رہائشی، ٹور گائیڈز اور متاثرہ خاندان شامل تھے، اور اس تفتیش کے نتیجے میں دو افراد – بشیر اور پرویز – کی شناخت ہوئی جنہوں نے دہشتگردوں کو پناہ دی تھی۔
شاہ نے کانگریس رہنما پی چدمبرم پر الزام لگایا کہ انہوں نے پاکستان کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی لشکرِ طیبہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، حکومت نے فوج کو کھلی اجازت دے دی۔ شاہ نے بتایا کہ 10 مئی کو پاکستان کے ڈی جی ایم او نے بھارت سے جنگ بندی کی درخواست کی۔
بحث میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ رہنما حزب اختلاف راہول گاندھی نے پاکستان کی مذمت کی لیکن سوال اٹھایا کہ صرف 22 منٹ بعد حکومت نے پاکستان سے کیوں رابطہ کیا۔ پرینکا گاندھی نے سیکیورٹی میں غفلت اور جائے وقوعہ پر میڈیکل سہولتوں کی عدم موجودگی پر تنقید کی۔ اکھلیش یادو نے جنگ بندی کے پیچھے دباؤ کی نوعیت پر سوالات اٹھائے۔ کانیموژھی اور سایانی گھوش نے حزب اختلاف کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کو نامناسب قرار دیا۔ ڈی ایم کے کے اے راجا نے دعویٰ کیا کہ انٹیلی جنس رپورٹ ہونے کے باوجود سیکورٹی کا فقدان تھا۔
کے سی وینوگوپال نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید جنگ بندی میں کسی تیسرے ملک کا کردار ہو۔ ڈمپل یادو نے پوچھا کہ اگر جنگ بندی کا اعلان امریکہ کے صدر نے کیا، تو حکومت خاموش کیوں رہی۔
حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے نیشی کانت دوبے نے کہا کہ ہر ہندوستانی کی جان قیمتی ہے اور دہشتگردوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ شری کانت شنڈے نے کہا کہ دنیا بھر میں بھارت کی خارجہ پالیسی کو سراہا گیا۔
وزیر اعظم کے تفصیلی جواب کے بعد، ایوان کی کارروائی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
