نئی دہلی، 11 اگست 2025 – مبینہ “ووٹ چوری” اور ووٹر ویری فیکیشن میں بے ضابطگیوں کے خلاف انڈیا بلاک کے لگ بھگ 300 ارکانِ پارلیمنٹ نے پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن کے دفتر تک احتجاجی مارچ کیا۔ اس مارچ کی قیادت لوک سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی، کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کی۔ ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے، بائیں بازو کی جماعتوں اور دیگر علاقائی پارٹیوں کے متعدد اراکینِ پارلیمنٹ بھی اس احتجاج میں شریک ہوئے۔

مارچ پارلیمنٹ کے مکر دوار سے شروع ہوا، جہاں اراکین کے ہاتھوں میں “ووٹ بچاؤ” کے بینر تھے اور وہ “ووٹ چور، گدی چھوڑ” جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حالیہ تین ریاستی اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر ووٹر لسٹ میں ردوبدل اور ووٹ چوری ہوئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن فوری اور شفاف اقدامات کرے تاکہ انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔

اس سے قبل ہی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس مسئلے پر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی، جس کے باعث کارروائی کو دوپہر دو بجے تک ملتوی کرنا پڑا۔ بعد میں جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن اراکین اپنے طے شدہ مارچ کے لیے نکل پڑے۔

دہلی پولیس نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اس مارچ کے لیے کوئی باضابطہ اجازت نہیں لی گئی۔ چنانچہ جیسے ہی جلوس الیکشن کمیشن کی جانب بڑھا، اسے ٹرانسپورٹ بھون کے قریب بیریکیڈ لگا کر روک دیا گیا۔ اکھلیش یادو نے بیریکیڈ پھلانگنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے روک لیا۔ آگے نہ بڑھنے دینے پر اراکین سڑک پر ہی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ پرینکا گاندھی، ڈمپل یادو اور دیگر رہنماؤں نے موقع پر ہی نعرے بازی جاری رکھی۔

اسی دوران ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ متالی باغ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور وہ بے ہوش ہو گئیں۔ راہل گاندھی اور دیگر اراکین نے فوری طور پر مدد فراہم کی، جس کے بعد میڈیکل ٹیم نے ابتدائی علاج کیا۔

بعد ازاں پولیس نے راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، اکھلیش یادو، ڈمپل یادو سمیت کئی اراکینِ پارلیمنٹ کو حراست میں لے کر پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانے منتقل کر دیا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد تمام رہنماؤں کو بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا۔

یہ مارچ اپوزیشن کی جانب سے الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھانے اور انتخابی شفافیت کے حوالے سے عوام میں پیغام دینے کی ایک بڑی سیاسی کوشش تصور کی جا رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابی سیزن سے پہلے اپوزیشن اس معاملے کو مزید شدت سے اٹھائے گی تاکہ حکومت پر دیانت داری اور شفافیت کے سوالات کو مزید گہرا کیا جا سکے۔