ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کے جنسی استحصال میں اضافہ، رپورٹ
بچوں کے آن لائن جنسی استحصال اور بدسلوکی میں اضافے کو فوری طور پر چیک کیا جانا چاہیے۔

اے ایم این/یو این نیوز

گزشتہ 12 مہینوں میں 300 ملین بچے آن لائن جنسی استحصال اور بدسلوکی سے متاثر ہوئے ہیں۔

یہ ایک چونکا دینے والا انکشاف بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی جانب سے شروع کی جانے والی ایک نئی رپورٹ سے ہوا ہے، جو 15 سال قبل مینڈیٹ کے آغاز کے موقع پر ہے۔

نجات مالہ مجد نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ چھوٹے بچے آن لائن ہو رہے ہیں لیکن یہ شکاریوں اور جنسی مجرموں کے لیے بھی درست ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آن لائن بچوں کی حفاظت کی کمی کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیجیٹل ماحول میں بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور استحصال میں شدت آ گئی ہے اور ہر سال تیس کروڑ سے زیادہ بچے اس کا نشانہ بنتے ہیں۔

بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ماما فاطمہ سنگھاتا نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی بچوں کے حقوق برقرار رکھنے اور انہیں تحفظ دینے کے لیے بہت سے مواقع لائی ہے۔ تاہم، اس کی تیزرفتار، تبدیل ہوتی اور غیرمعمولی صلاحیتوں سے بچوں کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو اس مسئلے پر پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پہلے سے موجود اور نئی ٹیکنالوجی کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے سے بچوں کو لاحق کئی طرح کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

Najat Maalla M’Jid, the UN Special Representative of the Secretary-General on Violence Against Children.

ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات

رپورٹ کے مطابق، موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، رضامندی کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیو حاصل کرنے، بچوں سے جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد کی تیاری، انہیں جنسی طور پر بلیک میل کر کے تاوان لینے اور ان سے جنسی بد سلوکی کے مناظر انٹریٹ پر براہ راست دکھانے جیسے جرائم کا ارتکاب عام ہو گیا ہے۔

ڈیپ فیک، عام تصاویر کو جعلسازی سے برہنہ دکھانے اور ان میں عمر کو گھٹا اور بڑھا کر ظاہر کرنے کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مواد کو سرور کے بغیر براہ راست ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور ویڈیو میں آواز کو تبدیل کرنے جیسے طریقوں سے بھی بچوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔

ماما فاطمہ کا کہنا ہے اس مسئلے سے نمٹنے کے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو موجودہ عدم مساوات کے ہوتے ہوئے یہ مزید بگڑ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی پامالیاں بڑھ جائیں گی جبکہ غیرمحفوظ اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے اس سے خاص طور پر متاثر ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں منظور کردہ بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدہ آن لائن دنیا میں سبھی لوگوں اور خاص طور پر بچوں کو تحفظ دینے کے لیے حکومتوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقدامات کے حوالے سے عالمگیر عزم کو تقویت دیتا ہے۔

حکومتوں اور کمپنیوں کے لیے سفارشات

ماما فاطمہ نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ ایسے قانونی نظام کو مضبوط بنائیں جن سے ان عناصر کو سزا مل سکے جو ڈیجیٹل ماحول کو بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات کی نگرانی کے لیے موثر قومی طریقہ ہائے کار کا قیام بھی ضروری ہے۔

خصوصی اطلاع کار نے ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ انہیں عمر کی تصدیق، انٹرنیٹ پر بچوں کے لیے دستیاب مواد کی نگرانی اور مسائل کی صورت میں بچوں کو مدد دینے کے طریقوں پر بھی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ ان کمپنیوں کے لیے کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق رہنما اصولوں کی تعمیل کرنا بھی ضروری ہے۔

خصوصی اطلاع کار نے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ فیصلہ سازی اور تکنیکی ضوابط سازی میں بچوں کی شرکت یقینی بنائیں۔