
آسٹریلیا نے بچوں کو آن لائن دنیا کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دسمبر دو ہزار پچیس سے سولہ برس سے کم عمر کے بچے یوٹیوب پر کھاتہ (اکاؤنٹ) نہیں بنا سکیں گے۔ یہ فیصلہ ملک کی نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد بچوں کو انٹرنیٹ کے خطرناک مواد، ذہنی دباؤ اور غیراخلاقی رویّوں سے محفوظ رکھنا ہے۔
یہ پابندی پہلے ہی ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ، انسٹا گرام، فیس بک اور سابق ٹوئٹر (جسے اب “ایکس” کہا جاتا ہے) پر نافذ کی جا چکی ہے، اور اب یوٹیوب کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ قدم ملک کی “ای سیفٹی کمشنر” کی سفارشات کے تحت اُٹھایا گیا ہے، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ یوٹیوب محض ویڈیو دیکھنے کا ذریعہ نہیں بلکہ اس میں بچوں کو انہی خطرات کا سامنا ہوتا ہے جو دیگر سماجی رابطوں کے ذرائع میں پائے جاتے ہیں۔
مشاہدہ کی اجازت، مگر شرکت پر پابندی
نئے ضابطے کے تحت سولہ برس سے کم عمر بچے یوٹیوب پر ویڈیوز تو دیکھ سکیں گے، مگر وہ:
- کوئی ویڈیو ارسال (اپ لوڈ) نہیں کر سکیں گے
- تبصرہ (کمنٹ) نہیں کر سکیں گے
- نہ ہی مخصوص مشوروں یا تجویز کردہ ویڈیوز تک رسائی حاصل کر سکیں گے
یعنی وہ صرف ناظر کے طور پر موجود ہوں گے، کسی بھی تخلیقی یا تبادلہ خیالی سرگرمی میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔
قومی پالیسی اور عالمی اثرات
آسٹریلیا کی حکومت نے اس فیصلے کو بچوں کی ذہنی صحت، نجی زندگی کے تحفظ، اور ورچوئل دنیا کے دباؤ سے بچاؤ کی کوشش قرار دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم پر خودکار نظام بچوں کو ایسے مواد کی طرف لے جا سکتے ہیں جو ان کی عمر، فہم اور جذباتی سطح کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
یہ ضابطہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا اقدام سمجھا جا رہا ہے، اور خیال کیا جا رہا ہے کہ آسٹریلیا کے اس فیصلے کے بعد دیگر ممالک بھی اسی طرز کی پالیسیاں اپنا سکتے ہیں۔
ردِّعمل: تحسین و تنقید
بچوں کے تحفظ کے ماہرین اور والدین کی بڑی تعداد نے اس فیصلے کو سراہا ہے، لیکن کچھ حلقے اسے نافذ کرنے کے عمل کو مشکل قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے جعلی عمر درج کر کے یا کسی اور طریقے سے ان پابندیوں کو عبور کر سکتے ہیں۔
تاہم، آسٹریلیا کی حکومت کا مؤقف واضح ہے کہ آن لائن دنیا میں بچوں کا تحفظ اس کی اولین ترجیح ہے اور آئندہ برسوں میں اس سلسلے میں مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
