سہیل انجم

ملک و بیرون ملک پرواز کرنے والی ہندوستان کی سرکردہ کمپنی ”انڈیگو ایئرلائن“ میں تین دسمبر سے جاری بحران سے پورے ملک میں ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ ہزاروں پروازیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ لاکھوں مسافر ایئرپورٹوں پر اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ لوگ میڈیا کے سامنے اپنی تکلیف دہ داستان سنا رہے ہیں۔ خواتین رو رو کر اپنا درد بیان کر رہی ہیں۔ لیکن بحران اتنا شدید ہے کہ ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود تادم تحریر حل نہیں ہو سکا ہے۔ دیگر ایئرلائنز اس صورت حال کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ حکومت نے اس استحصال کو روکنے کی کوشش کی ہے جو ناکام ہے۔ البتہ اس نے انڈیگو کی پروازوں میں دس فیصد کی تخفیف کر دی ہے۔ اس بحران کی وجوہات کیا ہیں اس پر ہم گفتگو نہیں کریں گے۔ ساری تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں یا آرہی ہیں۔ ہم تو اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات سے قارئین کو واقف کرانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اس گفتگو کو تمہید سمجھا جائے اور ہمارے ذاتی تجربات و مشاہدات ملاحظہ کیے جائیں۔

ہم گزشتہ گیارہ نومبر کو دہلی سے اترپردیش کے ضلع سنت کبیر نگر میں واقع اپنے آبائی گاوں آئے ہوئے تھے۔ بعض مصروفیات کی وجہ سے ہم جلد دہلی نہیں لوٹ سکے جہاں ہم مستقل طور پر سکونت پذیر ہیں۔ اسی اثنا میں دہلی کے ایک اشاعتی ادارے قاضی پبلشرز نے مولانا ابوالکلام آزاد پر ہماری ایک کتاب شائع کی۔ جس کی رسم اجرا چھ دسمبر کو ہونے والی تھی۔ (جو ہماری غیر موجودگی میں ہو گئی) لہٰذا ہمیں اس وقت تک ہر حال میں دہلی حاضر ہونا تھا۔ گورکھپور سے دہلی کے روٹ پر کئی ٹرینوں کے منسوخ ہونے کی وجہ سے ٹکٹ دستیاب نہیں ہو سکا۔ لہٰذا ہم نے بدرجہ مجبوری چار دسمبر کا انڈیگو فلائٹ سے ٹکٹ لیا۔ لیکن ٹکٹ ایودھیا سے ملا جو کہ ہمارے گاو ¿ں سے تقریباً سوا سو کلومیر دور ہے۔ ہمیں چھ دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کی برسی کی وجہ سے اس تاریخ کو اور وہ بھی ایودھیا سے دہلی کا سفر کرنے میں تردد تھا لیکن مجبوری کی وجہ سے ہم نے ٹکٹ لے لیا۔ ہم یہی سمجھتے رہے کہ ایودھیا میں ایئرپورٹ کے راستے میں قدم قدم پر مندر ملیں گے اور راستے، مارکیٹ اوردیگر مقامات ترشول بردار بھگوا پوش سادھووں سے مڈبھیڑ ہوگی۔ لیکن ایئرپورٹ تک جانے کے راستے میں نہ تو کوئی مندر ملا اور نہ ہی کوئی بھگواپوش۔ پھر بھی ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ ہماری اہلیہ برقعہ پوش ہیں کہیں کوئی کچھ کہہ نہ دے۔

اسی حیص بیص میں ہم دن میں بارہ بجے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ہم نے سوچا تھا کہ ایئرپورٹ کے باہر اور اندر کا ماحول ضرور ہندو دھارمک علامتوں سے پُر ہوگا اور اندر تو ضرور ترشول بردار اور بھگوا دھاریوں کی اکثریت ہوگی۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتا دیں کہ اس درمیان ہم نے خود کو عمداً خبروں سے دور رکھا۔ پوری زندگی خبروں کا کام کرنے کی وجہ سے دماغ اب مزید خبریں سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمیں ایک روز قبل شروع ہونے والے انڈیگو کے بحران کا علم ہی نہیں ہو سکا۔ بہرحال جب ہم ایودھیا ایئرپورٹ پراندر جانے لگے تو گیٹ پر کسی کو وہاں تعینات ایک خاتون کارکن سے بنگلور کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا جو کہہ رہی تھی کہ وہاں کی فلائٹس کینسل ہیں۔ ہم جب گیٹ پر پہنچے اور ایک مرد کارکن نے ہمارا ٹکٹ اور آئی ڈی چیک کیا تو ہم نے یوں ہی پوچھ لیا کہ کیا دہلی کی انڈیگو فلائٹ ڈیلے ہے۔ اس نے کہا کہ ڈیلے ہو سکتی ہے۔ اس وقت تک ہمیں بحران کا اندازہ نہیں تھا۔ گیٹ کے اندر جاتے ہی ایئرلائن کے عملہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک وردی پوش کارکن نے ہم سے سامان کی ٹرالی لے لی اور اس نے خود ہی لگیج کی اسکریننگ کرائی۔ پھر کمپیوٹرائزڈ بورڈنگ کارڈ نکالا اور اور ہمیں لگیج دینے والے بیلٹ اور بورڈنگ پاس ملنے کے کاونٹر تک پہنچا کر کہا کہ اب آپ اپنا لگیج وہاں جمع کر دیجیے۔ انڈیگو کی گھریلو پروازوں میں ایک مسافر کے لیے لگیج میں پندرہ کلو اور ہاتھ میں سات کلو تک کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارا لگیج پانچ چھ کلو زیادہ تھا پھر بھی وہ بڑی فراخ دلی سے لے لیا گیا۔ ہم سیکورٹی چیک سے گزر کر اندر لاونج میں گئے اور ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو کہیں بھی نہ تو ہندو دھرم کی علامتیں نظر آئیں اور نہ ہی رام مندر کی تصاویر۔ سوا ایک بڑی سی دیواری تصویر کے جس میں رام، سیتا اور ہنومان کے مختلف پوز پینٹ کیے ہوئے تھے۔ ہم نے گھوم گھوم کر پورے لاونج کو دیکھا مگر صرف دو افراد، جو کہ مسافر تھے بھگوا پوش نظر آئے۔ ورنہ وہ ایئرپورٹ بھی دیگر ایئرپورٹوں کی مانند ہی نظر آیا۔ البتہ ممبئی کے مسافروں میں کئی برقعہ پوش خواتین کو دیکھ کر تھوڑا اطمینان ہوا۔

ہم نے اپنے ساتھ لے جانے والے کھانے سے فراغت حاصل کی۔ ہم نے یوں ہی موبائل پر خبریں دیکھیں تو ہم تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ یہ اپ ڈیٹ تھا کہ دو بجے دہلی جانے والی فلائٹ ساڑھے چھ بجے جائے گی۔ پھر تو ہم نے بہت سی خبریں دیکھیں اور پھر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ ہم پھنس گئے ہیں۔ لیکن ایک امید بھی تھی کہ ممکن ہے کہ صورت حال سنبھل جائے اور فلائٹ تاخیر سے ہی سہی مل جائے۔ ممبئی کی فلائٹ میں بھی تاخیر تھی۔ وہاں کے مسافروں کو پونے تین بجے لنچ دیا گیا۔ وہاں کی فلائٹ جانے کے بعد دہلی کے مسافروں کو تقریباً چار بجے لنچ دیا گیا جو بہت ہی خراب اور بد مزا تھا۔

رفتہ رفتہ فلائٹ میں تاخیر ہوتی گئی۔ اب مسافروں کے صبر کا بند ٹوٹ گیا۔ وہ کاونٹر پر جمع ہوکر استفسار کرنے لگے۔ یہ استفسار وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تیز اور سخت ہوتا گیا۔ لوگوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ انڈیگو میں مسئلہ چل رہا ہے۔ مسافر ہنگامہ کرنے لگے اور گیٹ منیجروں سے لڑنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر حال میں دہلی جانا ہے۔ کسی کو دہلی سے ممبئی، کسی کو ادے پور جانا تھا۔ اگلے روز کسی کی بہن کی شادی تھی، کسی کو آفس میں اہم میٹنگ کرنی تھی اور کسی کو دبئی جانا تھا۔ جب عملے کی جانب سے فلائٹ کے کینسل ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تو شورشرابہ تیز ہو گیا۔ بہرحال وقت آگے بڑھتا رہا اور ہنگامہ شدت اختیار کرتا رہا۔ جب عملے نے دیکھا کہ لوگ زیادہ ہنگامہ کر رہے ہیں تو کسی تشدد کے اندیشے کے پیش نظر مزید سیکورٹی جوان طلب کر لیے گئے۔ لیکن ہنگامہ فرو ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اب عملہ کی جانب سے پرواز کے منسوخ کیے جانے کی باتیں ہونے لگیں۔ رات کے آٹھ بجے بتایا گیا کہ ایک فلائٹ دہلی سے لکھنو جا رہی ہے، وہاں سے مسافروں کو لے کر دہلی جائے گی، پھر وہاں سے مسافروں کو لے کر ایودھیا آئے گی، پھر وہی یہاں سے مسافروں کو لے کر دہلی جائے گی۔ بہرحال رات کے تقریباً دس بجے اعلان کر دیا گیا کہ فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔ اس وقت تک ایئر پورٹ میں سناٹا چھا گیا تھا۔ صرف دہلی جانے والے پھنسے ہوئے مسافر اور عملہ کے دس پندرہ افراد اور سیکورٹی جوان رہ گئے تھے۔

انھی خاتون گیٹ منیجروں میں ایک پچیس تیس سال کی خاتون کا نام رخشندہ تھا۔ وہ جب اعلان کرتی تو اپنا نام بتاتی کہ میرا نام رخشندہ ہے اور میں آپ کی گیٹ منیجر ہوں۔ جب فلائٹ کے کینسل ہونے کا حتمی اعلان کر دیا گیا تب بھی لوگ لڑ رہے تھے اور کسی بھی قیمت پر دہلی جانے کے لیے بضد تھے۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ اندازہ ہوا کہ مقامی عملہ بے بس ہے۔ اصل قصوروار اوپری افسران ہیں۔ جن کے ہاتھ سے بھی معاملہ نکل چکا ہے۔ کینسیلیشن کے اعلان کے بعد ہم اہلیہ کے ساتھ ایک کنارے بیٹھ کر غور و فکر کر رہے تھے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے یا ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اسی درمیان وہ گیٹ منیجر جس کا نام رخشندہ تھا ہمارے پاس آئی اور اس نے ہمدردانہ لہجے میں ہم سے کہا کہ انکل فلائٹ تو کینسل ہو گئی ہے۔ آپ باہر نکل جائیے اور اگر دہلی جانا بہت ضروری ہو تو بس وغیرہ دیکھ لیجیے۔ ہم نے کہا کہ سوا سو کلومیٹر پر ہمارا گھر ہے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم رات میں بس سے دہلی تک کا سفر نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہماری برقعہ پوش اہلیہ بھی ساتھ میں ہیں۔ عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ ہم گھر ہی جائیں۔ رخشندہ نے کہا کہ آپ اولہ کیب ٹرائی کر سکتے ہیں۔ اس نے یہ بھی پوچھا کہ آپ کے موبائل میں اولہ ایپ ہے۔ ہم نے اس کو موبائل دے دیا۔ اس نے اولہ ایپ پر ہمارے گاوں کا ڈسٹینیشن ڈالا اور کافی دیر تک کوشش کرتی رہی۔ بالآخر اس نے کہا کہ انکل وہ ایکسپٹ نہیں کر رہے ہیں۔ آپ آئیے میں آپ کے باہر نکلنے کا راستہ ہموار کرتی ہوں۔ اس نے ہمارا بورڈنگ پاس لیااور ایک رجسٹر پر، جس پر باہر جانے والوں کا اندراج کر رہی تھی ہمارا بھی اندراج کیا۔ ہم نے کہا کہ ہمارا لگیج؟ اس نے کہا وہاں بیلٹ کے پاس سب کا لگیج رکھا ہوا ہے۔ آپ کاونٹر نمبر آٹھ پر جائیے وہ آپ کا ریفنڈ اِنی شیئیٹ کر دیں گے۔ آپ اپنا سامان وہاں سے لے لیجیے۔ پھر اس نے سیکورٹی والوں سے کہا کہ سر کو باہر نکال دیجیے۔ باہر یعنی بالکل ایئرپورٹ کے باہر نہیں بلکہ ایئرپورٹ کے اندر جہاں سے لگیج اندر جاتا ہے اوربورڈنگ پاس ملتا ہے۔ ہم نے اس خاتون کے رویے پر غور کیا اور یہ بھی سوچا کہ اس نے صرف ہمارے ساتھ ہمدردی کیوں دکھائی اور بھی تو بہت سے مسافر ہیں ان سے اس نے اظہار ہمدردی کیوں نہیں کیا تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ اگر چہ تنگ اسکرٹ اور قمیص میں تھی لیکن ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔

اس خاتون کارکن کا بس ایک اور واقعہ سن لیجیے۔ ہم نے اپنے آبائی گھر گاڑی کے لیے فون کر دیا تھا اور عملے کی اجازت سے وہیں اندر ہی بیٹھ کر اس کا انتظار کرتے رہے۔ رات میں تقریباً پونے بارہ بجے اس خاتون یعنی رخشندہ پر ہماری نظر پڑی جو اپنی ڈیوٹی ختم کرکے گھر جا رہی تھی۔ ہم چونک گئے۔ وہ سرتاپا برقعے میں نظر آئی۔ اس نے اسکارف بھی اس طرح اپنے چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا کہ چہرے کا کم ہی حصہ نظر آرہا تھا۔ اس کا یہ حلیہ دیکھ کر ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ کندھے سے ایک چھوٹا سا بیگ لٹکائے ہوئے تیز تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔ ہم نے اس کے حلیے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے گھر کا ماحول ضرور مذہبی ہوگا جبھی وہ ایئرپورٹ کے اندر اپنا یونیفارم تبدیل کرکے برقعہ پوش بن گئی۔ برقعے میں وہ کوئی دوشیزہ نہیں بلکہ ایک مکمل عورت محسوس ہوئی۔ ہم جب ایودھیا کے لیے نکلے تھے تو ہمارے دل میں اندیشے ہی اندیشے تھے۔ جس کی ایک وجہ ہماری اہلیہ کا برقعہ پوش ہونا بھی تھا۔ لیکن ایودھیا میں برقعہ پہن کر اپنے گھر جانے والی ایئر لائن کی اس خاتون کارکن کو دیکھ کر ہمارے دل میں اس کے تئیں عزت و احترام کا جذبہ پیدا ہو گیا۔

ہم نے ایئرپورٹ پر سیکورٹی جوانوں کا معاون رویہ بھی دیکھا۔ خواتین کا مزاج یہ ہے کہ وہ استعمال کی کوئی بھی چیز برباد نہیں ہونے دیتیں۔ ہمارے پاس مﺅناتھ بھنجن کا ایک مشہور تیل ”روغن احمر“ تھا جسے ہم دہلی لے جا رہے تھے۔ لیکن سیکورٹی والوں نے وہ تیل نکال کر کوڑے دان میں ڈال دیا تھا۔ جب ہم گاڑی کا انتظار کر رہے تھے تو وہاں تعینات ایک خاتون کانسٹبل ہم سے گفتگو کرنے لگی۔ اس سے حوصلہ پاکر ہماری اہلیہ نے کہا کہ اس سے کہیے کہ اگر وہ تلاش کرکے وہ تیل ہمیں دے دے تو اس کی مہربانی ہوگی۔ ہم نے جھجکتے ہوئے خاتون کانسٹبل سے درخواست کی۔ اس نے روکی جانے والی اشیا کے باکس کی فوراً تلاشی لی لیکن تیل نہیں ملا۔ وہ کسی اور ڈسٹ بن میں ڈال دیا گیا تھا اور وہ خالی کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح اہلیہ کو واش روم جانے کی ضرورت پڑی اور ہماری درخواست پر سیکورٹی جوانوں نے باہمی مشورے سے اسی خاتون کانسٹبل کو ان کے ساتھ بھیجا۔ اس نے ازسرنو ان کی سیکورٹی چیکنگ کی اور وہ اپنے ساتھ لے گئی اور اپنے ساتھ ہی واپس بھی لائی۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایئرپورٹوں پر سیکورٹی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔

بہرحال گھر سے آنے والی گاڑی رات میں ساڑھے بارہ بجے پہنچی۔ اس طرح ہم پانچ دسمبر کو علی الصبح تقریباً ساڑھے تین بجے اپنے گاوں کرنجوت بازار ضلع سنت کبیر نگر پہنچے۔ ہم دونوں چار دسمبر کی صبح سوا نو بجے سے پانچ دسمبر کی صبح ساڑھے تین بجے تک مسلسل بیٹھے رہنے پر مجبور رہے۔ ہم دونوں میاں بیوی شوگر کے مریض ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ہماری کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اس طرح ہم بھی ایئرلائن کی تاریخی ستم رانیوں کے شکار ہو گئے۔

SUHAIL ANJUM