مدحت فاطمہ
ہندوستان میں دماغی صحت کے ماہرین کی شدید کمی ہے۔ مسلمانوں کے لیے، ملک میں، ذہنی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ثناء، جو اس موضوع پر جرمن پبلک براڈکاسٹر ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والی ان کئی لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنا اصل نام استعمال نہ کرنے پر اصرار کیا، کا کہنا تھا کہ انہوں نے دماغی صحت کے ایک درجن پروفیشنلز کی خدمات حاصل کیں اور بیشتر مواقع پر ان کی مسلم شناخت پر سوال اٹھائے گئے۔
ثناء کو اپنے کالج کے دنوں میں سائیکو تھراپی اور دماغی صحت سے متعلق مشاورت کی ضرورت پڑی۔ انہیں “اس بدنما داغ اور اس کے لیے مدد طلب کرنے سے وابستہ شرمندگی پر قابو پانے میں” ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔
ثنا کو ایک مسلمان کے طور پر ذہنی صحت کی مدد کے حصول میں درپیش ذاتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ، بھارت میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کا پتہ لگانے کے اضافی چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بتیس سالہ ڈیولپمنٹ پریکٹیشنر ثناء حالانکہ خود کو بہت زیادہ مذہبی نہیں سمجھتیں، اس کے باوجود، اپنی مسلم شناخت کی وجہ سے، انہیں نفسیاتی مدد لینے کے دوران ناموافق ماحول اور ناپسندیدہ گفتگو کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں، “میں ایک مسلمان ہوں، لیکن میں دقیانوسی مسلمان کی طرح نہ تو نظر آتی ہوں اور نہ ہی میرا لہجہ ہے۔ میں پڑھی لکھی ہوں، روانی سے انگریزی بول سکتی ہوں، اکیلی رہتی ہوں، اور ایک موقع پر تو میں نے اپنے بالوں کو سنہرے رنگ سے رنگا بھی تھا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “اکثر چیزیں جو مجھ سے کہی جاتی ہیں وہ بہت ناگوار ہوتی ہیں جن کی جڑیں مسلمانوں کے خلاف گہرے تعصب پر مبنی ہوتی ہیں۔”
ثنا نے نئی دہلی میں ملک کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(ایمس) میں ماہر نفسیات کے ساتھ اپنے ناخوشگوار تجربے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا “حاملہ خواتین کے لیے دوا کے مضر اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے، اس (ڈاکٹر) نے کہا: ‘میں آپ کو یہ صرف اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ آپ لوگوں (مسلمانوں) کے بہت زیادہ بچے ہوتے ہیں۔”
ثنا نے کہا، “میں نے نسخہ اٹھایا اور کبھی واپس نہیں گئی۔”
ثناء کا معاملہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ بھارت میں ذہنی صحت کی مراکز پر جانے والے مسلمانوں کے لیے، متعدد چیلنجز ہیں۔
مسلمانوں کی ذہنی صحت پر بہت کم توجہ
متعدد ریاستوں میں کام کرنے والے خودمختار خواتین کے گروپوں کے اتحاد، بیباک کلیکٹو کی 2022 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ “ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی صحت کو بری طرح کم کرکے پیش کیا گیا ہے اور ہندوستان میں ذہنی صحت یا ڈیولپمنٹ لٹریچر میں اس کا ذکر تقریباً نا کے برابر ہے۔
صحت اور خاندانی بہبود پر پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی گزشتہ سال شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک میں صرف 2,840 تسلیم شدہ طبی ماہر نفسیات ہیں۔ رپورٹ میں ڈاکٹروں کے سماجی و اقتصادی پس منظر کا کوئی ذکر نہیں ہے، یعنی یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ماہر نفسیات مسلمان ہیں۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
جرنل آف ہیلتھ سائنسز میں کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “مسلمانوں میں ہندوؤں کے مقابلے میں بے چینی کا زیادہ خطرہ پایا گیا”۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا: “مطالعہ سے ایسے شواہد ملے ہیں جو سماجی ثقافتی مشکلات اور نفسیاتی پریشانیوں کے درمیان مضبوط مثبت تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔”
مزید برآں، 2020 میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مسلمان اور دلتوں کی ذہنی صحت اونچی ذات کے ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ دلتوں اور مسلمانوں کے پاس تعلیم کم ہے اور ان کے پاس اثاثے بھی کم ہیں۔
دماغی صحت کی مدد کے حصول میں چیلنجز
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ ہر 100,000 آبادی میں کم از کم تین پریکٹسنگ سائیکاٹرسٹ ہونے چاہئیں۔ تاہم، ہندوستان میں ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کی تعداد نمایاں طور پر کم ہے، جہاں ہر 100,000 افراد کے لیے صرف 0.3 ماہر نفسیات ہیں۔ اس کے نتیجے میں علاج تک رسائی میں شدید چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔
وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں 150 ملین لوگوں میں سے جنہیں 2016 میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت تھی، 30 ملین سے کم نے فعال طور پر مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
زیادہ اخراجات، سماجی بدنامی، محدود بیداری اور اہل پروفیشنلز کی شدید کمی زیادہ تر ہندوستانیوں کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال کو بڑی حد تک ناقابل رسائی بناتی ہے۔
اگرچہ شہری تعلیم یافتہ کمیونٹیز کے درمیان ذہنی اور نفسیاتی امراض سے وابستہ بدنما داغ کا خوف نمایاں طور پر کم ہوا ہے، لیکن اہل معالجین کی کمی اب بھی صحیح معالج کی تلاش کو ایک اہم چیلنج بناتی ہے۔
شہری اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کے لیے یہ رکاوٹیں اور بھی زیادہ ہیں۔ بہت سے لوگوں کو پہلے مذہبی فریم ورک کے اندر سے مدد لینے کے دباؤ پر قابو پانا پڑتا ہے۔ لیکن جب وہ سیکولر پیشہ ورانہ معالجین کی تلاش کرتے ہیں، تو اکثر ایسے معالجین کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جو ان کی سماجی مذہبی شناخت کو سمجھے اور ان کا احترام کرے۔
انتیس سالہ فیضان (تبدیل شدہ نام) نے کہا، “میرے خاندان میں ذہنی صحت کے خیال کو کھلے عام تسلیم نہیں کیا جاتا۔” فیضان، جو 2015 سے معالجین سے علاج کرا رہے ہیں نے کہا کہ جب معاملہ انتہائی سنگین ہو جاتا ہے تب اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ورنہ، بالعموم یہی کہا جاتا ہے کہ خدا پر بھروسہ رکھو۔”
زیبا (تبدیل شدہ نام)، نئی دہلی میں مقیم ایک 26 سالہ صحافی ہیں، کو ایک مختلف قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ایک ایسے معالج کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کی جو ان کے مذہبی عقائد کو سمجھ سکے اور اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے علاج فراہم کر سکے۔
انہوں نے کہا، “میں ایک ایسے مسئلے سے گزر رہی تھی جس میں میرے مذہب کا کردار تھا۔” “میں چاہتی تھی کہ کوئی خدا کے ساتھ میرے تعلق کو سمجھے اور یہ سمجھنے میں میری مدد کرے کہ کیا مذہب کے نام پر میرے ساتھ غلط سلوک کیا جا رہا ہے۔”
زیبا نے کہا، “میں بہت زیادہ حساس جرم میں مبتلا تھی، وجہ یہ تھی کی شادی سے قبل ایک لڑکے ساتھ میں نے جسمانی تعلقات قائم کر لیے تھے، جو کہ اسلام میں حرام ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “تھراپسٹ میرے مسائل کے مذہبی پہلو کو سمجھنے سے قاصر تھا اس لیے میں نے ایک مسلم تھراپسٹ کی تلاش شروع کی۔
کیا مذہب اور دماغی صحت میں کوئی تعلق ہے؟
حالیہ برسوں میں، دماغی صحت کے ماہرین نفسیاتی خدمات میں انفرادی مذہبی اور روحانی نظام کو شامل کرنے کے لیے تیزی سے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
سائیکو تھراپی کا یہ نقطہ نظر، جسے مذہبی طور پر مربوط علمی طرز عمل کا علاج کہا جاتا ہے، پانچ بڑے عالمی مذاہب: عیسائیت، یہودیت، اسلام، بدھ مت اور ہندو مت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
کشمیر میں مقیم ماہر نفسیات شاہینہ پروین نے مسلم نوجوانوں میں مذہبیت اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کی کھوج میں اپنی تحقیق میں پایا کہ نوجوان مسلمانوں میں مذہب ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
سن دوہزار تیرہ میں امریکہ میں دماغی صحت کے مسلم اسکالرز نے بھی روایتی اسلامی طور پر مربوط سائیکوتھراپی کا نظریہ پیش کیا تھا۔ یہ سائیکو تھراپی کی ایک شکل ہے جو روایتی اسلامی اصولوں کو جدید نفسیات کے ساتھ جوڑتی ہے۔ اور جسے امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے منظور کیا ہے۔
دہلی سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات عائشہ حسین کا کہنا ہے، “ہماری نفسیات سائیکو سوشل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ہمارے خاندان، مذہب، سماجی پس منظر وغیرہ کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ تھراپسٹ کو سماجی ثقافتی طور پر آگاہ رہنے کی ضرورت ہے، لیکن ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے معالج کا ہونا ہمیشہ مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا، “بعض اوقات، فیصلے کے خوف سے، مریض کسی ایسی چیز کو مسلم معالج کے ساتھ شیئر کرنے میں ہچکچاتے ہیں جسے ‘غیر اسلامی’ سمجھا جاتا ہے۔”
نئی دہلی میں مقیم دماغی صحت کی محقق پوجا پریموادا نے کہا کہ یہ دونوں ہی طریقوں سے کام کرتا ہے۔ “کبھی کبھی مذہب دماغی صحت اور بیماری کے بارے میں خرافات اور غلط فہمیوں کو برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن بعض اوقات وہی مذہبی عقائد امید پیدا کر سکتے ہیں۔”