Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz

نئی دلی : آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ )کی دہلی شاخ نے سنیچر کی شام قومی و سماجی یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں مسلم ، سکھ، عیسائی اور بودھ سماج کے بڑے قائدین نے شرکت کی ۔انہوں نے مل کر قومی وسماجی یکجہتی کے تانے بانے کو مضبوط کرنے کا عہد کیا اور ان طاقتوں کو بے نقاب کیا جو اپنے معمولی سیاسی فائدے کے لیے ہماری ی


کانفرنس میں گردوارہ سنگھ کے قومی ترجمان اور آل انڈیا پیس مشن کے صدر دیا سنگھ ، سابق وزیر دہلی راجندر پال گوتم ، انسٹی ٹیوٹ آف ہارمنی اینڈ پیس اسٹڈیز کے صدر ڈاکٹر ایم ۔ ڈی ۔ تھامس ، معروف عالم دین مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ساملا کے جنرل سیکرٹری فیروز خان غازی ایڈوکیٹ ، مسلم مجلس مشاورت کے ورکنگ صدر اور انڈین نیشنل لیگ کے سربراہ پروفیسر محمد سلیمان، سابق ایم پی رام بخش ورما اور مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے شرکت کی ۔کانفرنس کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نےکی ۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خا ن نےاپنی افتتاحی تقریر میں سورہ حجرات کی آیات 11 ۔ 13 ، جن کی تلاوت سے کانفرنس کا آغاز ہوا تھا، کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اسلام انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا ہے ۔ اللہ پاک کے نزدیک سب سے بہتر انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہو یعنی اللہ پاک سے ڈرنے والا اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت کرنے والا ہو۔ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اقوال کا بھی حوالہ دیا جن میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت ہے بلکہ سب برابر ہیں اور سب آدم کی اولاد ہیں ۔ آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گورنر مصر مالک الاشتر کے نام ہدایتی خط کا بھی حوالہ دیا جس میں حضرت علی نے فرمایا :” مالک! لوگ تمہارے یا تو دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں بھائی ہیں “۔ انھوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان نے کہا تھا کہ یہ قول بین الاقوامی قانون کا ایک منبع ہے ، اسے لکھ کر دنیا کی تمام حقوق انسانی کی تنظیموں کے صدر دروازوں پر ٹانگ دینا چاہیے۔

ڈاکٹر ظفرالاسلام نے قومی وسماجی یکجہتی اور ملک میں بھائی چارے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف ہندوستانی ائین و قانون کی رو سے ضروری ہے بلکہ اگر ہمارے ملک اورسماج کو ترقی کرنا ہے اور دنیا کی عظیم ترین قوموں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہے تو ہمیں اپنی سوسائٹی میں محبت اور ایک دوسرے کے احترام کو لازما فروغ دینا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ نفرت کی سیاست کر رہے ہیں وہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جن کو ملک کی اکثریت متحد ہو کر شکست دے سکتی ہے ۔

آل انڈیا پیس مشن کے صدر سردار دیا سنگھ نے گرو گرنتھ سنگھ سے کچھ اشلوک پڑھے جن کے وہی معنی ہیں جو کہ کانفرنس میں پڑھی گئی قرآن پاک کی آیتوں کے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سب نے مل کر اس ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی ہے جبکہ کچھ طاقتوں نے یہاں کے سماج کے لوگوں کو لڑانے کا کام مستقل طور کیا ہے ، انھوں نے کچھ طبقات کے حقوق مارے اور کچھ پر بڑا ظلم کیا جیسا کہ سنہ 1984 میں سکھوں کا قتل عام کرکے کیا ۔ اس وقت مسلم سماج کے لوگوں نے سکھوں کو ہر جگہ بچایا تھا اور اپنے گھروںاور مسجدوں میں سکھوں کو پناہ دی تھی ۔ مسلمانوں کے تئیں سکھوں پر یہ ایک قرض ہے ۔انہوں نے کہا کہ آزادی کے فورا بعد ہی یعنی 1950 میں ایک فیصلہ صدر جمہوریہ نے کیا جس کے ذریعے اگر کوئی دلت مسلمان یا کرسچن ہو جاتا ہے تو اس کا ریزرویشن ختم ہو جاتا ہے ،جو کہ ایک ظلم ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وقف کے خلاف جو قانون ابھی آیا ہے اس کے خلاف سکھ سماج نے بھی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ سردار دیا سنگھ نے بتایا کہ مشہور یہی ہے کہ سکھوں کے مسلمانوں سے تاریخ میں بہت خراب تعلقات رہے اور مسلمانوں نے ان پر ظلم کیا لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ گرو نانک نے بابر کی تعریف کی اور ان واحد بانی جو کسی ایک شخص کے بارے میں ہے وہ بابرسے موسوم ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ بادشاہ اکبر نے تیسرے گروبابا امر داس کی بیٹی بیبی بھانی کو اس کی شادی پر 50 گاؤں دیے تھے اور یہ وہی زمین ہے جس پر آج امرتسر آباد ہے اور جہاں گولڈن ٹمپل بنا ہوا ہے جس کی بنیاد سائیں میر صاحب نے رکھی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سکھوں کے جہانگیر بادشاہ سے بہت اچھے تعلقات تھے اور جب دلی میں ا ٓٹھویں گرو ہرکشن جی کا انتقال سنہ ۱۶۶۴ میں چیچک سےاورنگزیب کے زمانے میں ہوا تو اورنگزیب نے کہا کہ جس جگہ ان کا انتقال ہوا ہے وہ خالصہ کی ملکیت ہے اور گرو جی کو وہیں دفن کرو ۔ اسی لیے گرو ہر کشن جی کو وہیں دلی میں دفن کیا گیا۔ سردار دیا سنگھ نے کہا کہ یہ سب باتیں آج اتہاس سے نکالی جا رہی ہیں تو اس کے بعد کیا بچے گا ۔انہوں نے بتایا کہ دلی میں ماتا سندری کا علاقہ مغلوں نے دیا تھا۔ماتا سندری گرو گوبند سنگھ کی بیوہ تھیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کرتار پور میں پاکستانی سرکار نے گردوارہ کے لیے 40 ایکڑ زمین دی ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔ یہ دیش سب کا ہے ۔اس کے لیے سب نے قربانی دی ہے اور اس سچ کو آج بولنے کی ضرورت ہے ۔

مفتی عطاء الرحمن قاسمی، نائب صدر مسلم مجلس مشاورت اور ڈائریکٹر شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نے بتایا کیا کہ اورنگزیب نے کہا تھا کہ امور سلطنت میں مذہب کا دخل نہیں ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں پچھلے سو سال سے ایک تحریک چل رہی ہے جو ہمارے بھائی چارے کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہ تحریک آج کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمان سلاطین نے اسلام پھیلانے کا کوئی کام نہیں کیا بلکہ ان ساری دلچسپی اپنی سلطنت کا رقبہ بڑھانے میں تھی۔ پھر بھی انہوں نے مسجدوں کو کم زمینیں دیں اور مندروں، گردواروں اورگر جاؤں کو زیادہ زمینیں دیں ۔

سابق ایم پی ڈاکٹر رام بخش ورما نے بتایا کہ انہوں نے آر ایس ایس کی شاخوں سے اپنی زندگی شروع کی تھی اور بعد میں سیکولر سیاست میں آئے ۔ ان کا تجربہ یہ ہے کہ سنگھ کے لوگ بولتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں اس دیش کو پیچھے لے جانا چاہتی ہیں۔ آج کا تانا شاہ اپنے آپ کو سپر پاور کہتا ہے ۔اس نے ملک کے سارے میڈیا پر قبضہ کر لیا ہے، دیش کے مالدار لوگوں سے ہاتھ ملا لیا ہے اور عوام کا استحصال کر رہا ہے۔ ہٹلر نے بھی یہی کام جرمنی میں کیا تھا ۔اس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد کمزور لوگوں کو ختم کرنا شروع کر دیا تھا ۔آج ہمارے ملک میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ پیسے سے بہت سے کام ہو رہے ہیں، ووٹ خریدے جا رہے ہیں ۔ ۸۰۔۸۵ فیصد لوگوں کو حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے اور ان کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کو منو سمرتی جلانے کی ضرورت پڑی ۔ انہوں نے بتایا کہ آئین کے پاس ہونے کے صرف چار دن کے بعد آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس آرگنائزر نے لکھا تھا کہ ہم اس دستور کو کبھی قبول نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو انگریزوں کے ساتھ مل کر آزادی کے لیے لڑنے والوں کے خلاف کھڑے تھے بلکہ ان کے سرسنگھ چالک نے اس وقت کہا تھاکہ ہم کو ایسی آزادی نہیں چاہیے بلکہ ہم کو انگریز کی غلامی منظور ہے ۔ ڈاکٹر رام بخش ورما نے کہا کہ ہم اور ہمارے مسلمان بھائیوں کے پوروَج ایک ہی ہیں ۔ہمارے اندر کچھ کمیاں تھی جس کی وجہ سے ہمارے کچھ لوگ ہم سے الگ ہو گئے تھے ۔یہاں پر کوئی ہندو مسلم لڑائی نہیں تھی۔ اورنگزیب کی فوج میں ہندو تھے اور شیوا جی کی فوج میں مسلمان تھے ، سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج میں دوسرا سب سے بڑا عہدہ مسلمان کو دیا تھا۔ اس ملک کے لیے بہادر شاہ ظفر اور بیگم حضرت محل نے کتنی بڑی قربانیاں دیں ۔ انہوں نے بتایا کہ محمد فیروز خان رانی جھانسی کی فوج کا ایک کمانڈر تھا جو آخر دم تک انگریزوں سے لڑتا رہا جبکہ خود رانی جھانسی کے کچھ رشتہ داروں نے اسے دھوکہ دے دیا تھا۔ ڈاکٹر رام بخش ورما نےکہا کہ مذہب بدلنے سے ولدیت نہیں بدلتی ہے ہم سب کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ انہوں نے اقبال کے اس شعر پر اپنی بات ختم کی: ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘۔

ایڈوکیٹ فیروز خان غازی جنرل سیکرٹری ساملا نے بتایا کہ ہمارے قانون نے اس ملک میں مختلف سماجوں اور ورگوں کو ملا کر ایک قوم بنانے کی جدوجہد کی ہے ۔آئین کے مقدمے ہی میں یہ بات لکھی ہوئی ہے لیکن آج یہاں ایک ایسی پارٹی حکومت کر رہی ہے جس کا مقصد حیات مسلمانوں کو ذلیل کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نیشنل انٹیگریشن کونسل اسی بنائی گئی تھی کہ ملک میں یکجہتی پیدا ۔ وزارت داخلہ نے گائیڈ لائن جاری کی تھی کہ پولیس والے دنگے اور فساد میں کیسے کام کریں۔ عبادتی جگہوں کی حفاظت کے لیے 1991 میں قانون پاس کیا گیا تھا ۔ یہ سب قومی یکجہتی کی حفاظت کے لیے تھا تاکہ یہاں پر مختلف سماج کے لوگ مل کر ایک قوم بنیں لیکن پچھلے ۳۰ ۔ ۳۵ سال سے کچھ قوتیں اس قوم کو دوبارہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی درپے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ نفرت کی سیاست کے خلاف کھڑے ہونا ہمارا فرض ہے ۔ ان طاقتوں نے ابھی پرسنل لا اور وقف پر حملہ کیا ہے اور ابھی بہت کچھ اور آنے والا ہے ۔اسی لیے ضرورت ہے کہ ہم آواز اٹھائیں اور کہیں کہ ہم کسی ظلم کو نہ برداشت کریں گے نہ اسے ہونے دیں گے ۔اگر ہم آج مل کر ایک ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے تو یہ دیش ٹوٹ جائے گا ۔ انہوں نے بتایا کہ جس کو ہم آج اکھنڈ بھارت کہتے ہیں اور اس کے خواب دیکھتے ہیں اس کو تو دراصل مغلوں نے بنایا تھا ۔ان سے پہلے ہم سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے ۔

سابق وزیر دہلی راجندرپال گوتم ایڈوکیٹ نے کانفرنس میں بولتے ہوئے کہا کہ میں اس علاقے میں پچھلے کچھ دنوں کے اندر کئی بار آیا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ آواز جو آج یہاں سے اٹھ رہی ہے وہ نیچے تک ، غریب اور دلت بستیوں تک پہنچے کیونکہ اصل مسئلہ وہاں ہے ۔ یہ لوگ صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ نہیں کر رہے ہیں بلکہ عیسائی بھی ان کے ٹارگٹ پر ہیں ۔ غریب ادیواسی اوردلت ان کے ٹارگٹ پر ہیں ۔اس کے بعد اور دوسرے لوگ ان کے ٹارگٹ پر آئیں گے ۔انہوں نے بتایا کہ نفرت کی طاقتوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملہ اس وقت کیا جب بہت سے دلت اور ادیواسی اسلام اور عیسائیت قبول کر نے لگے۔ انہوں نے کہا کہ جو انگریز، فرانسیسی اور ڈچ وغیرہ ہندوستان آئے تھے وہ واپس چلے گئے اور آج جو یہاں مسلمان اورعیسائی ہیں وہ سب یہیں کے لوگ ہیں۔ آج جو 20 کروڑ مسلمان ہیں ان کی اکثریت عظمی ادیواسی اور دلت تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے کچھ لوگ اور ان کی مذہبی کتابیں جیسے منوسمرتی اور وید یہ کہتے ہیں کہ برہمن کے علاوہ سب نیچ ہیں ۔ایسی حالت میں اگر ان لوگوں نے اپنا مذہب بدلا تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی ۔یہاں پر کچھ لوگ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ برہمن کے علاوہ کوئی انسان نہیں ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں پر برہمنوں کے علاوہ کسی کی کوئی حقوق نہیں تھے اور یہ معاملہ ڈھائی ہزار سال سے چل رہا ہے۔ برہمنوں نے مغلوں اور انگریزوں کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کی نہ ان پر کوئی ظلم کیا ۔انہوں نے بتایا کہ انگریزوں کے زمانے میں جب ایک برہمن راجہ نند کمار کو قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا ہوئی تو وہ پہلا موقع تھا جب برہمنوں نے انگریزوں کے خلاف احتجاج کیا ۔ جب امبیڈکر نے بیوہ کو حق دیا کہ وہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے تویہ سب ان کے خلاف ہو گئے۔ ہمیں جڑ تک جانا چاہیے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ مسائل کیا ہیں۔ دو ہزار سال قبل اس ملک میں بدھوں کو ختم کیا گیا تھا۔ بدھ مندروں کو برہمن مندروں میں تبدیل کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ جب مودی وزیراعلی تھے تو گجرات کے سومنات مندرکے نیچے کھدائی ہوئی تھی اور وہاں پر بدھ نوادرات ملے تھے ۔انہوں نے کہا کہ 1984 میں سکھوں کے خلاف جنہوں نے دنگے کرائے تھے وہ وہی ہیں جو آج دنگے کرا رہے ہیں۔ انہوں نے ہی پادری اسٹینز کو جلایا تھا۔ آپ کچھ بھی کر لیں ،ان کے نزدیک آپ ناپاک ہیں ۔ابھی راجستھان اسمبلی میں دلت قائد اختلاف جب ایک مندر میں گیا تو اس کے نکلنے کے بعد مندر کو گنگا جل سے دھویا گیا ۔دنگوں میں مرنے ،مارنے اور لٹنے والے سب لوگ شیڈولڈکاسٹ ،شیڈیولڈ ٹرائب اور اقلیت کے لوگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1993 سے پہلے اس ملک میں دھارمک جلوس نہیں نکلتے تھے تو اب کیوں نکل رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کچھ لوگوں کو دھرم کی رکھشا کے کام پر لگا دیا ہے ۔جب مسلمانوں کی حکومت تھی تب تو ان کا دھرم خطرے میں نہیں تھا تو اب کیسے ہو گیا جب کہ وہ خود حکومت کر رہے ہیں ۔سارا معاملہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی اقتدار پر ان کا قبضہ چلتا رہے ۔اسی لیے وہ دنگے کراتے ہیں ۔لڑائی ہندو مسلمان کی نہیں ہے بلکہ اقتدار کی ہے ۔ راجندرپال گوتم نےزور دےکر کہا کہ بند کمروں میں سے نکلنا چاہیے اور نیچے اتر کر غریب اور دلت بستیوں میں جانا چاہیے جن کو دنگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس نفرت کی سیاست میں غریب اور دلت لوگوں کا استعمال نہ ہوپائے ۔آج یہ حالت ہے کہ ان لوگوں کا حکومت کے ہر ڈپارٹمنٹ پر پورا قبضہ ہے ،الیکشن کمیشن پر ان کا پورا تسلط ہے، کتنے لوگوں کو انہوں نے ووٹنگ لسٹ سے نکال دیا ہے اور کتنے لوگوں کا اضافہ کر دیا ہےتاکہ ان کو سیاسی فائدہ مل سکے ۔انہوں نے بتایا کہ اگر سپریم کورٹ بھی آستھا کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگے تو مسئلہ بہت گمبھیر ہوجاتا ہے۔ منووادی غریب و کمزوردلت اور ادیواسی کو اپنا ہتھیار سمجھتے ہیں اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کو ان لوگوں سے کوئی محبت نہیں ہے ۔ ہم کو انہی غریب لوگوں تک جانا ہے اور ان کو بتانا ہے کہ منو سمرتی نے ہی ہمارے سارے مسائل پیدا کیے ہیں۔

Click to listen highlighted text!