FILE PHOTO

نیلم جینا

بھارت نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں ایک نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ جَسٹ رائٹس فار چِلڈرن (جے آر سی) کی تازہ رپورٹ “ٹِپنگ پوائنٹ ٹو زیرو: ایویڈنس ٹوورڈز اے چائلڈ میرج فری انڈیا” کے مطابق، ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادیوں میں ۶۹ فیصد اور لڑکوں میں ۷۲ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بھارت میں ایک سماجی انقلاب برپا ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانونی اقدامات جیسے گرفتاری اور ایف آئی آر سب سے مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات، اسکولوں اور پنچایتوں کے ذریعے شعور اجاگر کرنے کی کوششوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ریاست آسام نے سب سے زیادہ ۸۴ فیصد کمی درج کی، اس کے بعد مہاراشٹر اور بہار (۷۰ فیصد)، راجستھان (۶۶ فیصد) اور کرناٹک (۵۵ فیصد) شامل ہیں۔

یہ کامیابی گزشتہ تین برسوں میں مرکزی و ریاستی حکومتوں، شہری سماجی تنظیموں اور مقامی کمیونٹی کے مشترکہ اقدامات کا نتیجہ ہے۔ سروے میں شامل ۹۹ فیصد افراد نے بتایا کہ انہوں نے “چائلڈ میرج فری انڈیا” مہم کے بارے میں غیر سرکاری تنظیموں، اسکولوں یا پنچایتوں کے ذریعے سنا یا جانا۔

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں ایک خصوصی تقریب میں جاری کی گئی۔ اسے جے آر سی کے تحقیقی شعبے “سی لیب” نے تیار کیا، جو بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے “انڈیا چائلڈ پروٹیکشن” کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ جے آر سی بھارت کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو ۲۵۰ سے زائد شہری سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے۔

آسام کی شاندار کارکردگی کو سراہتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما کو “چیمپئنز آف چینج” ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شعور، قانون اور سماجی تبدیلی

۲۰۱۹ سے ۲۰۲۱ کے درمیان بھارت میں ہر منٹ تین کم عمری کی شادیاں ہوتی تھیں، لیکن روزانہ صرف تین شکایات درج ہوتی تھیں۔ آج صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب تقریباً ہر فرد کم عمری کی شادی سے متعلق قوانین سے واقف ہے، جو کچھ سال پہلے تک ناقابلِ تصور تھا۔

بہار میں ۹۳ فیصد، مہاراشٹر میں ۸۹ فیصد اور آسام میں ۸۸ فیصد لوگوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے مہم کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ راجستھان اور مہاراشٹر میں اسکولوں نے بھی اہم کردار ادا کیا، جہاں بالترتیب ۸۷ اور ۷۷ فیصد افراد نے اسکولوں سے آگاہی حاصل کی۔

جے آر سی کے بانی بھوون ربھو نے کہا، “بھارت آج کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے دہانے پر ہے۔ یہ صرف ایک ترقیاتی ہدف حاصل کرنے کی بات نہیں بلکہ دنیا کو یہ دکھانے کا موقع ہے کہ اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہے۔” انہوں نے بھارت کے کامیاب ماڈل کو تین اصولوں پر مبنی قرار دیا: روک تھام، تحفظ اور قانونی کارروائی۔

تعلیم، غربت اور رکاوٹیں

اگرچہ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ سروے میں شامل ۷۵۷ دیہاتوں میں سے صرف ۳۱ فیصد میں ۶ سے ۱۸ سال کی تمام لڑکیاں اسکول جا رہی تھیں۔ مہاراشٹر میں یہ شرح ۵۱ فیصد تھی، جبکہ بہار میں صرف ۹ فیصد۔

شرکاء نے غربت (۸۸ فیصد)، بنیادی سہولیات کی کمی (۴۷ فیصد)، تحفظ کے مسائل (۴۲ فیصد) اور نقل و حمل کی کمی (۲۴ فیصد) کو لڑکیوں کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ کم عمری کی شادی کے اسباب میں بھی یہی عوامل نمایاں رہے، جہاں ۹۱ فیصد نے غربت اور ۴۴ فیصد نے تحفظ کو بنیادی وجہ بتایا۔

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اب لوگ کم عمری کی شادی کی اطلاع دینے میں زیادہ اعتماد محسوس کرتے ہیں۔ ۶۳ فیصد نے کہا کہ وہ اب حکام کو اطلاع دینے میں “مکمل طور پر پُر اعتماد” ہیں، جبکہ ۳۳ فیصد نے کہا کہ وہ “کسی حد تک” پُر اعتماد ہیں۔

سفارشات اور مستقبل کا لائحہ عمل

رپورٹ میں ۲۰۳۰ تک کم عمری کی شادی کے مکمل خاتمے کے لیے کئی تجاویز دی گئی ہیں: قوانین پر سختی سے عمل درآمد، معلوماتی نظام کو بہتر بنانا، شادی کی رجسٹریشن لازمی قرار دینا، اور دیہاتی سطح پر آگاہی پروگرام چلانا۔ اس کے علاوہ، “چائلڈ میرج فری انڈیا” کے لیے ایک قومی دن مقرر کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

سروے میں ملک کی سماجی و ثقافتی تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئے دیہاتوں کا انتخاب کیا گیا۔ ڈیٹا جمع کرنے کے لیے آشا، آنگن واڑی کارکنان، اسکول اساتذہ، نرسیں، دایاں اور پنچایت ممبران جیسے فرنٹ لائن افراد سے رابطہ کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر منعقدہ تقریب “چائلڈ میرج فری ورلڈ” میں سیرالیون کی خاتون اول ڈاکٹر فاطمہ مادا بیو، ناروے کے وزیر، فرانس کے انسانی حقوق سفیر، کینیا کے حکومتی نمائندے اور آر ایف کے ہیومن رائٹس کی صدر کیری کینیڈی نے بھی شرکت کی۔

اثرات اور اعداد و شمار

۲۰۲۳ سے اب تک جے آر سی نے بھارت میں ۵ لاکھ سے زائد بچوں کی مدد کی ہے اور ہر گھنٹے ۱۸ کم عمری کی شادیاں روکی ہیں۔ اپریل ۲۰۲۳ سے ستمبر ۲۰۲۵ کے درمیان، اس نیٹ ورک نے ۳۹۷۸۴۹ کم عمری کی شادیاں روکی، ۱۰۹۵۴۸ بچوں کو انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت سے بچایا، ۷۴۳۷۵ مقدمات درج کیے، اور ۳۲۰۰۰ جنسی استحصال کے شکار بچوں کو مدد فراہم کی۔

جے آر سی پہلا ایسا نیٹ ورک بن گیا ہے جس نے “۳ پی” ماڈل—پراسیکیوشن، پریوینشن اور پروٹیکشن—کو بڑے پیمانے پر نافذ کیا ہے، جو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔

بھارت کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ جب قانون، قیادت اور عوامی شراکت داری ایک ساتھ آتی ہے تو معاشرتی تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے—اور سیکھ رہی ہے۔