Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz

عندلیب اختر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 اپریل سے ہندوستان سمیت تمام ممالک پر باہمی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی ٹیکس کی مقدار جو کوئی دوسرا ملک امریکہ سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر لگائے گا۔ امریکہ اس ملک سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی یہی ڈیوٹی لگائے گا۔ دوسری طرف بھارت۔ امریکہ تجارتی معاہدے کے تحت امریکہ بھارت پر زیرو ڈیوٹی کی شرط قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارتی درآمدات پر محصولات بڑھانے کی دھمکیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال نے بین الاقوامی تجارتی محاذ پر بھارت کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔ نہ صرف امریکہ اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے بلکہ امریکہ کے ساتھ موجودہ تجارت ہمارے لئے تجارتی سرپلس بھی پیدا کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی ہم امریکہ سے درآمد سے زیادہ برآمد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ بار بار ہندوستان پر ٹیرف کم کرکے امریکی درآمدات بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ظاہر ہے، ہندوستانی حکومت اپنے سب سے بڑے تجارتی ساتھی کے ساتھ بہتر باہمی تعلقات برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرے گی۔ امریکی درآمدات پر ٹیرف کی شرح کو کم کرنا ان کوششوں کا ایک اہم حصہ ہوگا۔ لیکن اگر یہ کوششیں امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی سرپلس کو کم کرتی ہیں، جیسا کہ ٹرمپ چاہتے ہیں، تو اس کا ہندوستان کے مجموعی بین الاقوامی تجارتی خسارے پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
جنوری میں ملک کے مجموعی تجارتی خسارے میں تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا۔


تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوری 2025 میں ہندوستان کا کل تجارتی خسارہ بڑھ کر 22.99 بلین ڈالر ہو گیا، جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 16.56 بلین ڈالر تھا۔ یعنی سال بہ سال (YoY) کی بنیاد پر، جنوری 2025 میں ملک کے کل تجارتی خسارے میں 24.85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تجارتی خسارے میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ جنوری 2025 میں ہندوستان کی دیگر ممالک کو برآمدات سالانہ بنیادوں پر 2.38 فیصد کم ہوکر 36.43 بلین ڈالر ہوگئیں، جب کہ جنوری 2024 میں یہ 37.32 بلین ڈالر تھی۔ یہاں تک کہ اگر ترتیب وار بنیادوں پر دیکھا جائے تو ہندوستان کی برآمدات میں مسلسل تیسرے مہینے کمی آئی ہے۔ دوسری طرف، اسی مدت کے دوران، ہندوستان کی درآمدات سالانہ بنیادوں پر 10.28 فیصد بڑھ کر 59.42 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ سونے کی درآمد میں اضافہ اس کی بڑی وجہ ہے۔ جنوری 2025 میں ہندوستان کی سونے کی درآمدات بڑھ کر 2.68 بلین امریکی ڈالر ہوگئیں، جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں $1.9 بلین تھی۔


برآمدات کے مقابلے درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
مجموعی طور پر، موجودہ مالی سال کے پہلے 10 مہینوں کے دوران، یعنی اپریل 2024 سے جنوری 2025 کے درمیان، ملک کی کل برآمدات صرف 1.39 فیصد اضافے سے 358.91 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ اسی عرصے کے دوران درآمدات 7.43 فیصد اضافے کے ساتھ 601.9 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان 10 ماہ کے دوران ملک کا کل تجارتی خسارہ 242.99 بلین ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ بھی اس نقصان کا باعث بنی ہے۔ 2025 میں اب تک ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 1.4 فیصد کمی آئی ہے جس سے ہمارے درآمدی بل میں اضافہ ہوا ہے۔
ہندوستان کے لیے تجارتی خسارے سے متعلق یہ چیلنج ایک ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب ہمارے پاس اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر امریکہ کے ساتھ تجارت میں اضافی تجارت کا حصہ ہے۔ جنوری 2025 میں امریکہ کو ہندوستان کی برآمدات سال بہ سال 39 فیصد بڑھ کر 8.44 بلین ڈالر ہو گئیں، جبکہ اسی مدت کے دوران درآمدات 33.46 فیصد بڑھ کر 3.57 بلین ڈالر ہو گئیں۔ رواں مالی سال کے 10 مہینوں میں امریکہ کو ہندوستان کی کل برآمدات بھی 8.95 فیصد بڑھ کر 68.46 بلین ڈالر ہوگئیں، جو پچھلے مالی سال کی اسی مدت میں 62.84 بلین ڈالر تھیں۔ پورے پچھلے مالی سال یعنی 2023-24 کے دوران، ہندوستان اور امریکہ کے درمیان اشیاء کی کل دو طرفہ تجارت $119.71 بلین تھی، جس میں ہندوستان کی کل برآمدات $77.51 بلین اور درآمدات $42.19 بلین تھیں۔ اس طرح امریکہ کے ساتھ ہندوستان کا کل تجارتی سرپلس 35.31 بلین ڈالر رہا۔ امریکہ ہندوستان کے ان چند تجارتی شراکت داروں میں شامل ہے جن کے ساتھ ہمارا تجارتی سرپلس ہے۔ ٹرمپ بار بار اس تجارتی سرپلس کو نشانہ بنا رہے ہیں اور بھارت پر درآمدات بڑھانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ٹرمپ کے دباؤ سے تجارتی خسارے کو سنبھالنے کا دباؤ بڑھ جائیگا
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے ہندوستان کے لیے ایک بڑامشکل چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ بھارت کے لیے اپنے سب سے بڑے تجارتی ساتھی کو ناراض کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ٹرمپ کے دباؤ میں بھارت کو مزید رعایتیں دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور اس سے امریکہ کے ساتھ بھارت کا تجارتی سرپلس کم ہو جاتا ہے، تو پہلے سے بڑھتے ہوئے مجموعی تجارتی خسارے کو سنبھالنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ درآمدی ڈیوٹی میں کمی کی وجہ سے ہندوستان کی گھریلو صنعتوں پر دباؤ بڑھنے کا امکان ہوگا۔ جس سے روزگار اور معاشی ترقی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن کا بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ مساوی باہمی ٹیرف کا بھارت پر اثر پڑے گا۔ لیکن توقع ہے کہ مسئلے کو جلد حل کر لیا جائے گا۔ ان کے مطابق ٹیرف ایک کلیدی ایشو ہے اور امریکی اہل کاروں سے وزیرِ تجارت پیوش گوئل کی بات چیت کا یہ اہم موضوع ہے۔خیال رہے کہ وزیرِ تجارت پیوش گوئل امریکی حکام سے ملاقات کے لیے امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔
دوسری طرف بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت امریکہ تجارتی معاہدے کا مقصد محصولاتی و غیر محصولاتی رکاوٹوں میں تخفیف، بازار تک رسائی میں توسیع اور سپلائی چین رابطے کا استحکام ہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت مصنوعات اور سروسز کے سیکٹر میں دو طرفہ تجارت کے فروغ اور دونوں کے لیے مفید باہمی معاہدے کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔انہو ں نے بھارت کے خلاف جوابی ٹیرف سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے امریکہ دورے کے موقع پر فریقین نے اعلان کیا تھا کہ وہ کثیر شعبہ جاتی تجارتی معاہدہ کے سلسلے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیوش گوئل کی بات چیت پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ تاہم بھارت کو امید ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اور تجارتی معاہدے کے ساتھ محصولات سے بچنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔


کیا بھارت امریکی گاڑیوں پر درآمدی ٹیکس صفر کر دے گا؟
امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے میں امریکہ سے بھارت بھیجی جانے والی کاروں پر محصول صفر کر دے، لیکن بھارت فوری طور پر اس طرح کے محصولات کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ خبروں کے مطابق بھارت میں موٹر گاڑیوں پر عائد بھاری محصولات باضابطہ دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت کا ایک اہم نقطہ ہو گا۔ یہ مذاکرات ابھی شروع ہونے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے امریکی الیکٹرک گاڑی ٹیسلا کے لیے راستہ کھل جائے گا، جو بھارت میں اپنی گاڑیاں لانچ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔بھارت میں گاڑیوں کی درآمد پر محصولات کی شرح 110 فی صد تک ہے جس پر ٹیسلا کمپنی کے سربراہ ایلون مسک یہ کہتے ہوئے تنقید کر چکے ہیں کہ یہ شرح دنیا بھر میں سب سے اونچی ہے۔مسک کو اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی حمایت حاصل ہو گئی ہے جنہوں نے کانگریس میں اپنے خطاب کے دوران بھارت میں ٹیکسوں کی اونچی شرح پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہاں گاڑیوں پر ٹیکسوں کی سطح 100 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے جوابی اقدام کی بھی دھمکی دی۔ امریکہ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ اپنے محصولات کو صفر تک نیچے لائے یا زراعت کے سوا بہت سے شعبوں میں انہیں نہ ہونے کے برابر کر دے۔امریکی صدر اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان پچھلے مہینے ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے محصولات کے مسائل حل کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس سلسلے میں معاہدے کے پہلے مرحلے میں اس سال موسم خزاں تک کام کی توقع ہے جس کا مقصد 2030 تک دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 500 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔

ٹرمپ درآمدی محصولات کیوں لگانا چاہتے ہیں؟
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ محصولات سے منصفانہ تجارت کی راہ ہموار ہو گی۔ٹرمپ محصولات کو غیر قانونی امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔درآمدی محصولات سے ملکی صنعتوں کو فرو غ ملے گا۔محصولات سے آمدنی میں اضافہ ہو گا اور امریکہ دوبارہ عظیم اور امیر بن جائے گا۔کئی معاشی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ امریکی صارفین کو اٹھانا پڑے گا اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک محصولات ایک خوبصورت لفظ ہے جس سے ملکی معیشت کے متعدد مسائل کو حل اور ملک کو امیر بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔زیادہ تر اقتصادی ماہرین کے نزدیک اگرچہ درآمدات پر عائد کیے جانے والے محصولات غیرمنصفانہ تجارت پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے لیکن وہ ٹرمپ کے دعوؤں پر شکوک و شہبات کا شکار ہیں۔ٹرمپ نے امریکہ کے تین بڑے تجارتی شراکت داروں میکسیکو، کینیڈا اور چین کی درآمدات پر ٹیکس لگانے یا لگانے پر غور کرنے کی بہت سی وجوہات پیش کیں ہیں جس سے تجارتی جنگ چھڑنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ٹیکسوں کے نفاذ سے صارفین اور کاروباری افراد پر بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ محصولات کے نفاذ سے امریکی آٹو انڈسٹری کو فروغ مل رہا ہے۔AMN

Click to listen highlighted text!