خود روزگاری کا غلبہ، ہنر مند افرادی قوت کی کمی: بھارت کے روزگار امکانات پر نئی تحقیق

عندلیب اختر

نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ (این سی اے ای آر) نے بھارت میں روزگار کے مستقبل سے متعلق ایک اہم اور جامع مطالعہ جاری کیا ہے، جس میں ملک کو درپیش روزگار کے چیلنجز، مواقع اور ممکنہ پالیسی راستوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ”بھارت کے روزگار کے امکانات: روزگار کے راستے“ کے عنوان سے یہ رپورٹ 11 دسمبر 2025 کو این سی اے ای آر کے وائس چیئرمین منیش سبھروال نے جاری کی۔ اس مطالعے کی قیادت پروفیسر فرزانہ آفریدی نے کی، جبکہ این سی اے ای آر کے محققین کی ایک ٹیم نے اس کی تیاری میں حصہ لیا۔


رپورٹ میں واضح طور پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بھارت میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ہنر مندی (اسکل ڈیولپمنٹ) اور چھوٹے کاروباروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ اس کے ساتھ ہی، افرادی قوت کی شرکت اور محنت کی پیداواریت کے معیار اور مقدار میں بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی فوری ضرورت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔


مطالعے کے مطابق حالیہ برسوں میں روزگار میں ہونے والا اضافہ بنیادی طور پر خود روزگاری میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ ہنر مند لیبر فورس کی جانب منتقلی کی رفتار خاصی سست رہی ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر محنت طلب مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں روزگار کے مواقع کو مضبوط کیا جائے تو مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کو تقریباً 8 فیصد تک برقرار رکھا جا سکتا ہے، جو ”وکست بھارت“ کے وژن سے ہم آہنگ ہے۔


رپورٹ کے اجرا کے موقع پر منیش سبھروال نے کہا کہ بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے بھارت اب بھی 128ویں نمبر پر ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ روزگار کی فراہمی اور جامع ترقی کو اولین ترجیح دینے کے لیے ابھی وسیع مواقع موجود ہیں۔


پروفیسر فرزانہ آفریدی نے رپورٹ کے اہم نتائج پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں خود روزگاری کی بالادستی کسی مضبوط کاروباری حرکیات کا نتیجہ نہیں بلکہ زیادہ تر معاشی مجبوریوں کی عکاس ہے۔ ان کے مطابق، جس طرح چھوٹے کسان محدود وسائل کے ساتھ خود کفیل سطح پر کام کرتے ہیں، اسی طرح بیشتر چھوٹے کاروبار بھی نہایت کم پیمانے پر سرگرم ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ اس کے روزگار کا مستقبل سب سے چھوٹے کاروباروں کی پیداواریت سے جڑا ہوا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ غیر منظم گھریلو ادارے کم سرمایہ، محدود پیداواری صلاحیت اور جدید ٹیکنالوجی کے کم استعمال کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔


رپورٹ کے مرکزی مصنف کے مطابق، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانے والے ادارے ان اداروں کے مقابلے میں جو ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرتے، اوسطاً 78 فیصد زیادہ افراد کو ملازمت دیتے ہیں۔ اسی طرح، اگر قرض تک رسائی میں صرف ایک فیصد اضافہ ہو جائے تو متوقع ملازمین کی تعداد میں 45 فیصد تک اضافہ ممکن ہے، جو مالی شمولیت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔


آبادیاتی برتری کے باوجود بھارت کو روزگار کی تخلیق میں مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سپلائی سائیڈ پر بھارتی ورک فورس کو نئی ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال سے نمایاں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی سطح کی مہارت پر مبنی ملازمتیں، خاص طور پر خدمات کے شعبے میں، روزگار کی ترقی میں غالب کردار ادا کر رہی ہیں، جبکہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ اب بھی بڑی حد تک کم مہارت پر انحصار کرتا ہے۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر باضابطہ مہارتوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ہنر مند ورک فورس کے حصے میں 12 فیصد پوائنٹس کا اضافہ کیا جائے تو 2030 تک محنت طلب شعبوں میں روزگار کے مواقع میں 13 فیصد سے زیادہ اضافہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ، مختلف سیمولیشنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ معتدل ترقی کے منظرنامے میں ہنر مند افرادی قوت میں اضافہ محنت طلب صنعتوں میں نمایاں تعداد میں نئی ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہنر مند ورک فورس کے تناسب میں 9 فیصد پوائنٹس اضافہ کرنے سے 2030 تک تقریباً 9.3 ملین نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے این سی اے ای آر کے سینئر ایڈوائزر ڈاکٹر جی سی منا نے کہا کہ یہ مطالعہ ان شعبوں کی نشاندہی کرتا ہے جہاں روزگار کی ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور جہاں پالیسی مداخلت کے ذریعے نمایاں نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح، انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈیز ان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کے وزٹنگ پروفیسر آدتیہ بھٹاچارجیا نے کہا کہ رپورٹ بھارت کو عالمی تناظر میں پیش کرتی


ہے اور ان شعبوں کو اجاگر کرتی ہے جہاں ملک کو بہتری کے منفرد مواقع اور بین الاقوامی معیار کے ساتھ ہم آہنگی حاصل ہے۔


رپورٹ کے مطابق، بین شعبہ جاتی روابط کے ملٹی پلائر اثرات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگر مینوفیکچرنگ اور خدمات کے نسبتاً زیادہ محنت طلب ذیلی شعبوں کی مجموعی پیداوار میں معتدل اضافہ کیا جائے تو 2030 تک کئی گنا زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اندازوں کے مطابق ٹیکسٹائل، گارمنٹس اور متعلقہ صنعتوں میں 53 فیصد جبکہ تجارت، ہوٹلوں اور متعلقہ خدمات میں 79 فیصد تک زیادہ ملازمتیں پیدا ہونے کا امکان ہے۔


آخر میں رپورٹ مخصوص شعبوں میں روزگار کے امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے واضح سفارشات پیش کرتی ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں پیداوار سے منسلک مراعات کو ٹیکسٹائل، گارمنٹس، جوتوں اور فوڈ پروسیسنگ جیسی محنت طلب صنعتوں کی طرف منتقل کرنے سے روزگار میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ خدمات کے شعبے میں سیاحت، تعلیم اور صحت کے لیے مضبوط پالیسی معاونت بڑے پیمانے پر اور جامع روزگار کی تخلیق میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔