AMN /نئی دہلی، ۳۱ جولائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان، جس میں بھارت کی معیشت کو “مردہ” قرار دیا گیا، پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس الزام کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان کے ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر ۲۵ فیصد درآمدی محصولات عائد کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے، جس پر بھارت نے نہایت سنجیدگی سے اپنی اقتصادی پوزیشن واضح کرتے ہوئے عالمی سطح پر اپنا مقام اور ترقی کی رفتار اجاگر کی ہے۔

بھارتی وزیرِ تجارت و صنعت جناب پیوش گوئل نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “بھارت نے گذشتہ ایک دہائی میں کمزور معیشتوں کے زمرے سے نکل کر دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بننے کا سفر طے کیا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت عالمی معیشت میں پانچویں درجے پر ہے اور آئندہ برسوں میں تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف گامزن ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ادارے اور ماہرینِ اقتصادیات بھارت کو آج “امید کی کرن” تصور کرتے ہیں اور عالمی ترقی میں بھارت کا حصہ ۱۶ فیصد تک پہنچ چکا ہے۔


امریکی محصولات اور پابندیاں: دباؤ کی حکمتِ عملی؟

امریکہ کی طرف سے یکم اگست سے بھارتی درآمدات پر ۲۵ فیصد ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے روس سے تجارتی تعلقات پر اعتراض اور “سزا کے طور پر اقدامات” کو ماہرین دباؤ کی حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مقصد بھارت سے تجارتی رعایتیں حاصل کرنا ہے۔

صدر ٹرمپ نے بھارت کے تجارتی نظام کو “دنیا میں سب سے زیادہ سخت” اور “ناقابلِ قبول” قرار دیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے بھارت کی چھ کمپنیوں پر ایران سے پیٹرو کیمیکل مصنوعات خریدنے کے الزام میں اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔


بھارتی حکومت کا جواب اور ممکنہ اثرات

وزیر پیوش گوئل نے ایوان میں یقین دہانی کرائی کہ حکومت ان حالات کے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے اور متعلقہ فریقوں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان اور چھوٹے کاروباروں سے مسلسل رابطے میں ہے۔

انہوں نے کہا، “حکومت کسانوں، مزدوروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان اور چھوٹے و درمیانی درجے کے کاروباروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔”


متاثرہ شعبے اور ماہرین کی رائے

بینک آف بڑودہ کے چیف ماہرِ اقتصادیات مدن سبنویس نے کہا کہ ان ٹیکسوں سے بھارت کی مجموعی معیشت پر ۰.۲ فیصد منفی اثر پڑ سکتا ہے، تاہم یہ جھٹکا مجموعی طور پر محدود ہوگا، لیکن بعض مخصوص شعبے زیادہ متاثر ہوں گے۔

نمایاں متاثرہ شعبے:

  • کپڑا اور ملبوسات: امریکہ بھارت کے ملبوساتی برآمدات کا ۳۳ فیصد حصہ خریدتا ہے۔ کپاس کی ٹی شرٹس، خواتین و بچوں کے کپڑے خاص طور پر متاثر ہوں گے۔
  • قیمتی پتھر اور زیورات: عالمی مسابقت برقرار رکھنے کے لیے نئے تجارتی طریقے اپنانے ہوں گے۔
  • گاڑیوں کے پرزے: امریکی مارکیٹ میں لاگت میں اضافہ ہوگا۔
  • چمڑے کی مصنوعات: کپڑے کے شعبے کی طرح اس شعبے کو بھی نئی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔
  • برقی آلات اور دوا سازی: برقی اشیاء پر ابہام موجود ہے، البتہ دواؤں کے شعبے میں ممکنہ نرمی کی امید ہے۔

سبنویس کا کہنا ہے کہ ان متاثرہ شعبوں میں بیشتر صنعتیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں پر مشتمل ہیں، جنہیں حکومت کی جانب سے خصوصی مدد کی ضرورت ہوگی۔


تجارتی تنظیموں کا ردعمل اور آئندہ کا لائحہ عمل

تجارتی ادارہ فِکّی نے امریکی اقدام پر افسوس کا اظہار کیا لیکن اُمید ظاہر کی کہ یہ صورتِ حال وقتی ہوگی اور بھارت و امریکہ کے درمیان جلد ہی دو طرفہ تجارتی معاہدہ طے پائے گا۔

فکّی کے صدر ہرش وردھن اگروال نے کہا، “یہ فیصلہ ہمارے برآمدی شعبے پر منفی اثر ڈالے گا، لیکن ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ جلد ختم ہو جائے گا اور دونوں ممالک ایک مستحکم تجارتی معاہدے پر پہنچیں گے۔”

مارچ ۲۰۲۵ سے بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک دو طرفہ تجارتی معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں، جس کا پہلا مرحلہ اکتوبر تا نومبر ۲۰۲۵ میں مکمل ہونے کی اُمید ہے۔

وزیر گوئل نے کہا کہ بھارت کسی بھی دباؤ میں جلد بازی میں معاہدہ نہیں کرے گا۔ “ہم صرف ایسے معاہدے میں یقین رکھتے ہیں جو قومی مفاد پر مبنی ہو اور دونوں فریقین کے لیے فائدہ مند ہو۔”

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت نے متحدہ عرب امارات، برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی آزاد تجارتی ممالک کے ساتھ پہلے ہی کامیاب معاہدے کیے ہیں۔


’ترقی یافتہ بھارت ۲۰۴۷‘ کی جانب مضبوط پیش قدمی

حکومت نے یقین دلایا ہے کہ بھارت کی ہمہ گیر اور پائیدار ترقی کی رفتار برقرار رہے گی اور ملک “ترقی یافتہ بھارت ۲۰۴۷” کے ہدف کی جانب مضبوطی سے بڑھتا رہے گا۔ آئندہ چند ہفتے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کے لیے نہایت اہم ہوں گے، اور بھارت کی سفارتی و اقتصادی حکمتِ عملی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔