
بھارت نے بدھ کے روز ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مل کر تیار کردہ ایک جدید ترین ریڈار تصویری مصنوعی سیارہ “نصار” کامیابی سے خلا میں روانہ کر دیا۔ یہ سیارہ، جس پر لگ بھگ ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے، آندھرا پردیش کے سری ہری کوٹا میں واقع ستیہ دھون خلائی مرکز سے شام پانچ بج کر چالیس منٹ پر زمین کے مدار کی جانب روانہ کیا گیا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی خلائی تحقیقاتی تنظیم اور امریکی خلائی ادارے نے کسی بڑے سائنسی منصوبے میں اس قدر قریبی اشتراک کیا ہے۔ اس کامیاب پرواز کے ساتھ ہی دونوں ممالک نے خلائی تحقیق میں باہمی تعاون کا ایک نیا باب رقم کیا ہے، جو دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے مطالعے کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔
“نصار” کی خصوصیات
“نصار” دنیا کا پہلا مصنوعی سیارہ ہے جو دو مختلف ریڈار لہروں کا استعمال کرتا ہے — ایک کو امریکہ نے تیار کیا ہے اور دوسری کو بھارت نے۔ ان دونوں لہروں کی مدد سے یہ سیارہ زمین کی سطح پر ہونے والی معمولی سے معمولی تبدیلی، یہاں تک کہ ایک سینٹی میٹر سے بھی کم نقل و حرکت، کو بھی درستگی کے ساتھ ناپ سکے گا۔
یہ مصنوعی سیارہ زلزلوں، زمین کھسکنے، برفانی تودوں کی نقل و حرکت، آتش فشانی سرگرمیوں، سمندر کی سطح میں تبدیلی، زرعی زمینوں کی نگرانی، اور جنگلات میں ہونے والی کمی بیشی جیسے عوامل کا باریک بینی سے مشاہدہ کرے گا۔ اس کے ذریعے حاصل ہونے والا ڈیٹا موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور قدرتی آفات سے بچاؤ کی منصوبہ بندی میں نہایت مددگار ثابت ہوگا۔
بین الاقوامی اشتراک کی روشن مثال
یہ مشن بھارت کی اس صلاحیت کا ثبوت ہے کہ وہ محدود وسائل میں عالمی معیار کی خلائی تحقیق کر سکتا ہے۔ کم خرچ اور بلند نظری کے اصول پر قائم بھارت کا یہ منصوبہ نہ صرف تکنیکی برتری کی علامت ہے بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک مثال بھی ہے۔
“نصار” سے حاصل ہونے والی معلومات دنیا بھر کے سائنس دانوں، تحقیق کاروں اور پالیسی سازوں کو نہ صرف موجودہ ماحولیاتی چیلنجوں کو سمجھنے میں مدد دے گی بلکہ آئندہ کے لیے بہتر حکمتِ عملی بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گی۔
