زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
بھارت بدل رہا ہے یا یوں کہیں کہ بھارت بدل چکا ہے۔ دیس کا سمویدھان تو نہیں بدلا گیا ہے لیکن دستوری اخلاقیات کو ہوا میں ضرور اڑا دیا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے اتوار (یعنی 8 دسمبر2024، بحوالہ ہندو) کو وشوہندو پریشد کے ذریعہ یونی فورم سول کوڈ پر بلائے گئے ایک جلسہ میں جو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لائبریری ہال میں منعقد ہوا اس میں انھوں نے کہا جیسا کہ ہندو اخبار نے سرخی لگائی ہے کہ ”بھارت اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا“ اس سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ ملک کا دستور اور قانون کچھ بھی ہو، لیکن حکمرانی اکثریت کے مطابق چلائی جائے گی۔ انھوں نے اخباری رپورٹ کے مطابق صاف صاف کہا کہ تعدد ازدواج، تین طلاق، حلالہ اور اس طرح کے رواج کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مزید براں انھوں نے اپنی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم بچپن سے اپنے بچوں بلکہ ان کی پیدائش کے دن سے تحمل اور ہمدردی سکھاتے ہیں اور ان کو جانوروں اور فطرت سے پیار کرنا سکھاتے ہیں۔ جب کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو ہم کو دکھ ہوتا ہے۔ مگر وہ، اب آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کون ہیں۔ ایسا محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کیوں – آپ کے بچے تحمل اور ہمدردی کیسے سیکھ سکتے ہیں جب ان کے سامنے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا ”مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ یہ بھارت ہے اور یہ اکثریت کی مرضی سے چلے گا۔“ جب جج ہم اور وہ کی تمیز کرنے لگیں تو انصاف کا خدا ہی حافظ ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ہندو ہونے کے ناطے وہ اپنے دھرم کا احترام کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسرے دھرموں اور عقیدوں کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ ہم آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ بھی شادی میں سات پھیرے لیں یا گنگا ہی اشنان کریں لیکن ہم آپ سے امید رکھتے ہیں کہ آپ ہمارے کلچر، دیوی دیوتاؤں اور ہمارے بڑے لیڈروں کی بے احترامی نہ کریں۔
انھوں نے وی ایچ پی کے وکلا اور رضا کاروں سے کہا کہ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جانی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے شاستروں اور ویدوں میں انہیں دیوی مانا گیا ہے۔ اور اسی سانس میں انھوں نے کہا کہ آپ کو چار بیویاں رکھنے، حلالہ کرنے اور طلاق ثلاثہ کا اختیار نہیں دیا جاسکتا ہے اور آپ مطلقہ کے گزارہ بھتے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ نا انصافی نہیں چلے گی۔ شاہ بانو کیس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس وقت کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بدل دیا اور کچھ لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔ یہ صرف آر ایس ایس، وی ایچ پی یا ہندو نہیں ہیں بلکہ عدالت عظمیٰ میں یونیفورم سول کوڈ کے حق میں ہے۔ جن عورتوں کو ان کے شوہروں نے چھوڑ رکھا ہے اور جو بیوہ ہیں کیا جج صاحب ان کو گزارہ بھتہ دلوائیں گے؟
انھوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندو سوسائٹی میں بہت سی بری رسمیں تھیں مثلاً ستی اور بال ویواہ کی رسمیں جس کا سدھار کیا گیا ہے۔ غلطیوں کا اعتراف کرنا اور اس کا سدھار کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ مجھے معلوم نہیں جسٹس شیکھر کمار یادو نے یہ بات یونہی کہہ دی ہے یا انھوں نے ڈاٹا بھی چیک کیا ہے۔ یونیسف کا 5 مئی 2023 کا ڈاٹا ہے کہ دنیا میں تین میں ایک بچپن کی شادی بھارت میں ہوتی ہے۔ ان میں سے جن بچیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے کم میں ہوتی ہیں ان میں آدھی شادی اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ جسٹس یادو کی ریاست اترپردیش میں ہوتی ہے۔ پورے ہندوستان میں تقریباً 23فیصد لڑکیاں 18 سال سے کم میں شادی کرتی ہیں۔ 40 فیصد 18 سال سے کم عمر کی لڑکیاں بنگال، بہار اور تری پورہ میں شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہوتی ہیں، جبکہ لکشدیپ میں یہ صرف ایک فی صد ہے۔ کم عمری میں شادی کی وجہ غربت، غیر محفوط ماحول، تعلیم کی کمی اور سماجی رسم و رواج ہے۔ ہماری بیک وارڈ اور دلت برادریوں میں اس کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ غریب اور غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں میں کم عمری میں شادی ہوتی ہے۔ آج کل کے کھلے ماحول میں سکنڈری اسکول میں پڑھنے والے لڑکے لڑکیاں جو کلاس آٹھ سے دس کے درمیان ہیں ان کی بڑی تعداد جنسی روابط قائم کرلیتے ہیں اوران میں کچھ حاملہ بھی ہوجاتی ہیں۔ اور جس ملک میں جتنی زیادہ جنسی آزادی ہے وہاں اس کا تناسب اتنا ہی زیادہ ہے۔
ستی کی رسم تو ختم ہوگئی ہے لیکن ابھی بھی کہیں کہیں اس طرح کی خبریں سننے کو ملتی ہیں اور چرا چھپا کر اس کو انجام دیا جاتا ہے۔ نربلی، بچوں کی قربانی جیسی رسمیں بھی موجود ہیں۔ قریب قریب ہر شہر میں کوئی نہ کوئی ستی مندر ہے جہاں لوگ خاص طور سے عورتیں شردھا کے پھول چڑھاتی ہیں اور ستی مائی کی پوجا کرتی ہیں۔ ناجائز تولد ہونے والے بچوں کی بڑی تعداد کو بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ بچیوں کی ماں کے پیٹ میں ہتیا ایک ایسی حقیقت ہے جو بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کے نعرے سے ہی ظاہر ہے۔
جہاں تک چار شادیوں یا ایک سے زائد شادیوں کا سوال ہے۔ اعداد و شمار یہ بتارہے ہیں کہ مسلمانوں میں اس کا رواج کم ہے ا ور کم ہورہا ہے۔ ابھی تک نئی مردم شماری نہیں ہوئی ہے ورنہ لوگوں کو معلوم ہوتا کہ کس قوم اور برادری میں ایک سے زیادہ شادی کا رواج ہے۔ پچھلی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی5.4%تھی جبکہ ہندوؤں میں 6.5% تھی۔ سب سے زیادہ شادی ٹرائبس میں ہوتی ہے اور یونیفورم سول کوڈ میں ان کو اس سے الگ رکھا گیا ہے۔
ہمارے یہاں جائز اور قانونی رشتوں پر پابندی ہے لیکن ناجائز رشتوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پولیٹکل لیڈرس، بزنس تائی کون، فلم اسٹار، کھلاڑی اور مختلف میدانوں کی نام چین ہستیاں ایک سے زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کا اسکنڈل باہر بھی آجاتا ہے اور کبھی وہ خود بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر شری اٹل بہاری واجپئی نے بزبانِ خود کہا کہ میں غیر شادی شدہ ہوں مگربرہمچاری نہیں ہوں۔ جو لوگ ستا کے گلیاروں میں گھومتے ہیں وہ آپ کو ڈالی چڑھانے کے قصے مزے لے لے کر سنائیں گے۔ سارا مسئلہ جائز تعلقات کا ہے۔ ایک فلم ایکٹریس نے جس کا کیریئر اچھا نہیں چل رہا تھا مگر سابق میں اس نے کئی ہٹ فلمیں دی تھیں، ممبئی کے ایک بزنس مین نے اس سے کہا کہ وہ اس کی کرایہ کی بیوی بن کر رہے وہ اس کو ماہانہ پچیس لاکھ روپے دیا کرے گا۔ اس نے اس سے کہا کہ شادی کرلو تو اس نے شادی سے انکار کیا۔ یہ بات خود اس نے ٹیلی ویژن چینل پر انٹرویو کے درمیان کہی۔ کیا ہمارے جج صاحبان ایسی عورتوں سے انصاف کرپائیں گے۔
بہرحال انھوں نے ان باتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہے اس کا اطلاع ہم سب پر ہوتا ہے۔ ہر مذہب کو اپنے اندر کی برائی کی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون لانا پڑے گا۔
میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جسٹس یادوں نے اپنا ذہن کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ شرمناک بات ہے کہ ایک سیٹنگ جج نے ہندو تنظیم کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ یہ بات بھارتیہ عدلیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جج صاحب نے اپنے خطاب میں جو زبان استعمال کی ہے وہ غیر آئینی، ہتک آمیز اور غیر دستوری ہے جس پر قانونی برادری کو غور کرنا چاہیے۔ اس پر فیض احمد فیض کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں