Last Updated on: 9 December 2025 1:31 PM

عندلیب اختر


بھارت کی معیشت نے جولائی تا ستمبر (2) میں توقع سے کہیں زیادہ مضبوط کارکردگی دکھاتے ہوئے 8.2 فیصد حقیقی جی ڈی پی نمو درج کی ہے۔ تاہم نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس ( ) کے جاری کردہ تفصیلی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ یہ اضافہ بنیادی طور پر صنعت اور خدمات کے شعبے کی طاقت کا نتیجہ ہے، جبکہ زراعت اور دیہی طلب یوٹیلیٹیز اب بھی پیچھے ہیں۔ یہ صورتحال ایک ایسی معیشت کی تصویر پیش کرتی ہے جو بظاہر مضبوط دکھائی دیتی ہے، لیکن اندرونی سطح پر کئی اہم کمزوریوں سے دوچار ہے—ایسی کمزوریاں جو آئندہ سال جی ڈی پی کی نئی بنیاد () کے بعد اور زیادہ نمایاں ہو سکتی ہیں۔
صنعت اور خدمات نے نمو کو سہارا دیا
دوسری سہ ماہی میں بھارت کی حقیقی جی ڈی پی بڑھ کر 48.63 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 44.94 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ حقیقی (جسے معاشی سرگرمی کا زیادہ درست اشارہ سمجھا جاتا ہے) میں 8.1 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس میں نمایاں کردار مینوفیکچرنگ کے 9.1 فیصد اور فنانس، رئیل اسٹیٹ اور پروفیشنل سروسز کے 10.2 فیصد اضافے کا ہے۔
مینوفیکچرنگ میں بحالی کی یہ رفتار اسٹیل کی کھپت میں اضافہ، سیمنٹ پیداوار میں بہتری، اور لسٹڈ کمپنیوں کے مضبوط Q2 منافع سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک سائیکلیکل ریکوری کی علامت ہے بلکہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ سپلائی چین کی رکاوٹیں بتدریج کم ہو رہی ہیں اور طلب کی پیش گوئی نسبتاً مستحکم ہو چکی ہے۔کنسٹرکشن نے بھی 7.2 فیصد اضافہ دکھایا، جس کی وجہ سرکاری کیپیکس میں اضافہ اور شہری جائیداد کے شعبے میں مسلسل سرگرمی ہے۔ خدمات کا مجموعی شعبہ 9.2 فیصد کی مضبوط نمو کے ساتھ ایک بار پھر یہ ثابت کر رہا ہے کہ بھارت کی معیشت میں ترقی کا سب سے بڑا انجن اب بھی خدمات ہی ہیں —ایئر ٹریفک میں اضافہ، بندرگاہوں پر کارگو کی بہتری، اور GST کے اعداد و شمار میں آؤٹ وارڈ سپلائیز کا بڑھنا اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
زراعت کی سست روی برقرار
زراعت اور وابستہ شعبوں کی GVA میں صرف 3.5 فیصد اضافہ ہوا، جو واضح طور پر معیشت کا سب سے بڑا بوجھ بنا ہوا ہے۔ پہلی زرعی پیشگی تخمینوں نے ابھی تک کسی مضبوط بحالی کی نشاندہی نہیں کی، جبکہ مانسون کی غیر متوازن تقسیم نے کئی بڑی فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ دیہی آمدنیوں میں غیر یقینی بہتری اور دیہی منڈیوں میں کمزور طلب اس شعبے کی مجموعی سست روی کی وجہ ہے۔اسی طرح یوٹیلیٹیز (بجلی، گیس، پانی) میں صرف 4.4 فیصد اضافہ ہوا، جو صنعتی نمو کے مقابلے میں کمزور ہے۔ اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی گھریلو طلب اتنی مستحکم نہیں ہوئی کہ بجلی کھپت زور پکڑے—یہ ترقی سپلائی سائیڈ کی بہتری کی زیادہ عکاسی کرتی ہے نہ کہ کھپت میں تیزی کی۔
کھپت بہتر، مگر غیر ہمہ گیر
نجی حتمی کھپت (PFCE) میں 7.9 فیصد کا اضافہ ہوا، جو گزشتہ سال کے 6.4 فیصد کے مقابلے میں بہتر ہے۔ لیکن یہ بہتری زیادہ تر شہری صارفین کی وجہ سے ہے—بشمول بینکوں سے زیادہ قرض لینا، انشورنس میں سرگرمی، اور مہنگی اشیاء پر خرچ میں اضافہ۔ دیہی طلب اب بھی کمزور ہے، کیونکہ زرعی آمدنی، موسمی اثرات اور غذائی مہنگائی نے دیہی صارفین کو دبا کر رکھا ہے۔حکومتی مصرف نے معیشت میں استحکام پیدا کیا ہوا ہے—مرکز اور ریاستوں کی جانب سے سبسڈیز، اسکیموں اور ریونیو اخراجات کے ذریعے طلب کو سہارا مل رہا ہے۔ بیرونی تجارت کا کردار بھی ملا جلا ہے: برآمدات بتدریج بہتر ہو رہی ہیں جبکہ درآمدات اب بھی مستحکم ہیں، جس سے مجموعی توازن پر دباؤ برقرار ہے۔
پہلی ششماہی تیز، مگر آنے والے خدشات شدید
مالی سال 2025–26 کے پہلے چھ ماہ میں حقیقی جی ڈی پی 8 فیصد بڑھی، جو گزشتہ سال کے 6.1 فیصد سے بہتر ہے۔ GVA میں 7.9 فیصد اضافہ ہوا۔ صنعت اور خدمات ہی ششماہی نمو کی بنیادی وجہ رہے، جبکہ زراعت کی سست روی مکمل سال کی نمو کو نیچے لے جا سکتی ہے اگر ربیع سیزن کی فصلوں میں نمایاں بہتری نہیں آتی۔NSO کی جانب سے جاری اعداد و شمار صنعتی پیداوار، فنانشل نتائج، GST ادائیگیوں، فریٹ موومنٹ، حکومتی خرچ اور بینکاری رجحانات پر مبنی ہیں۔ تاہم ادارہ خود بھی تسلیم کرتا ہے کہ اگلی ریلیزز میں ان اعداد و شمار میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر جب 2022–23 کو جی ڈی پی کا نیا بنیاد سال بنایا جائے گا، تو کئی شعبوں کے وزن (weights)، ڈیفلیٹرز اور تاریخی شرح نمو میں نمایاں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔
ایک مضبوط سہ ماہی—لیکن احتیاط کے ساتھ
سرِدست Q2 کی 8.2 فیصد نمو ایک شاندار کارکردگی لگتی ہے—ایک ایسی معیشت کی تصویر پیش کرتی ہے جو وبا کے بعد کی دنیا میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ صنعت کی بحالی، خدمات کا عروج، اور شہری مانگ کا بڑھنا اس کہانی کا مثبت پہلو ہے۔
تاہم اندرونی تصویر کچھ اور ہے:دیہی اور شہری مانگ کے درمیان بڑھتی خلیج،اعلیٰ خدمات کی تیز رفتار نمو بمقابلہ بنیادی یوٹیلیٹیز کی سست روی
مینوفیکچرنگ کی مضبوطی مگر زراعت کی مسلسل کمزوری،یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ بحالی مکمل طور پر متوازن نہیں ہے۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں دیہی مانگ کس حد تک بہتر ہوتی ہے؟ کیا قرض کی صورتحال سازگار رہتی ہے؟ اور
کیا عالمی تجارت اس قدر بحال ہو پائے گی کہ بھارت کی کمزور برآمدات کو سہارا دے سکے؟فی الحال دوسری سہ ماہی ایک بلند نمو کی تصویر ضرور پیش کرتی ہے، لیکن اس کے ستون معیشت کے ہر حصے میں یکساں مضبوط نہیں ہیں —کچھ حصے اب بھی دباؤ میں ہیں، اور مستقبل میں ان کے اثرات مزید واضح ہو سکتے ہیں۔
…………