ملیحہ اختر
دنیا بھر میں لڑکیاں موسمیاتی بحران، جنگوں اور غربت سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ انہیں اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لینے اور ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے
بچیوں کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہی۔ سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ بڑے عالمی مسائل نے 1.1 ارب لڑکیوں کے لیے مواقع کو محدود کر دیا ہے اور صنفی مساوات یقینی بنانے سے متعلق پائیدار ترقی کے پانچویں ہدف کو حاصل کرنے کی کوششیں خطرات سے دوچار ہیں۔
بچیوں کا عالمی دن ہر سال 11 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ نے لڑکیوں کے حقوق کی وکالت کرتے ہوئے صنفی مساوات، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔اقوام متحدہ نے یہ دن 2012 میں قائم کیا جس میں صنفی عدم مساوات، بچوں کی شادی اور تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔یہ دن لڑکیوں کی صلاحیتوں کو مناتا ہے اور ان کے حقوق کی وکالت کرتا ہے، سماجی، اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
یہ دن ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کرتا ہے، جس سے لڑکیوں کے لیے ترقی کی منازل طے کرنے اور معاشرے میں کردار ادا کرنے کے لیے ایک زیادہ منصفانہ اور معاون ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ‘لڑکیاں، مستقبل کا تصور’ امسال اس دن کا خاص موضوع ہے جو دنیا بھر کی لڑکیوں کے مطالبات پر عملدرآمد کی ہنگامی ضرورت کوواضح کرتا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ لڑکیوں کو آگے بڑھنے میں مدد دینے کے لیے ان کی بات سننا ہو گی اور انہیں اپنے عزائم کی تکمیل میں مدد دینا ہو گی۔ اس ضمن میں ‘خواتین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کا کمیشن’ مارچ 2025 میں بیجنگ اعلامیے اور پلیٹ فارم فار ایکشن پر عملدرآمد کے لیے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے گا۔انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی ہمت، امید اور عزم کا ادراک کرنا ہو گا اور دنیا کو چاہیے کہ وہ ان کے تصورات اور خواہشات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
صنفی مساوات کے لیے عزم
بچیوں کے اس عالمی دن پر اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک خصوصی پروگرام کے ذریعے لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نوجوان خواتین کو پالیسی سازوں سے براہ راست بات چیت کرنے اور اپنے حقوق سے پوری طرح کام لینے کے لیے درکار اختیارات پر اپنی سفارشات پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔اس موقع پر اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل (ایکوسوک) کے صدر باب رے نے کہا کہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو پوری طرح مساوی حقوق دینا اقوام متحدہ کا عزم ہے۔ تاہم یہ ایک ذاتی عزم بھی ہے اور سبھی کو اس کی تکمیل کی جنگ لڑنا ہے۔انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ دنیا میں تبدیلی لانے کے لیے آواز اٹھائیں۔ انہیں کھڑے ہونا ہو گا اور اپنے حقوق سے کام لینے میں دلچسپی دکھانا ہو گی۔ ہر جگہ انہیں جنسیت، نفرت اور تفریق کو مسترد کرنا ہو گا۔
تعلیم اور نوعمری کی شادی
‘یو این ویمن’ کے مطابق، آج دنیا بھر میں 119.3 ملین لڑکیاں سکول کی تعلیم سے محروم ہیں اور 39 فیصد بالائی ثانوی درجے کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ 2030 تک تعلیم سے محرومی کے نتیجے میں ہونے والا نقصان 10 ٹریلین ڈالر کی حد کو چھو سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور (ڈی ای ایس اے) کے مطابق، نوعمری کی شادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آج پیدا ہونے والی لڑکی دنیا سے نوعمری کی شادی کا مکمل خاتمہ ہونے تک 68 برس کی عمر کو پہنچ چکی ہو گی۔ رواں سال 47 لاکھ بچوں نے ایسی ماؤں کے ہاں جنم لیا جن کی عمر 18 سال سے کم تھی اور 340,000 بچوں کی پیدائش 15 سال سے بھی کم عمر ماؤں کے ہاں ہوئی۔
ڈیجیٹل تقسیم اور ٹیکنالوجی کے خطرات
لڑکیوں کے حقوق کی کارکن بیٹرز فینو مورفوجن نے کہا ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ نوکریوں میں کسی نہ کسی طور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ضروت پڑتی ہے۔ اس وقت ایک ارب لڑکیوں اور خواتین کو نوکریوں تک رسائی کے لیے درکار ضروری صلاحیتوں تک رسائی نہیں ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم، معیشت اور شہری زندگی میں فعال شمولیت یقینی بنانے کے لیے صنفی ڈیجیٹل تقسیم کو پاٹنا اور لڑکیوں کو آن لائن دنیا میں لاحق خطرات سے تحفظ دینا ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عالمی ڈیجیٹل معاہدہ اور مستقبل کا معاہدہ لڑکیوں کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کے میدان میں رکاوٹوں پر قابو پانے کا منفرد موقع مہیا کرتے ہیں اور ان کی بدولت ڈیجیٹل حکمت عملی کی تیاری میں صنفی مساوات کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
غریب ممالک کی 90% لڑکیاں انٹرنیٹ سے محروم:
یونیسف کے ایک نئے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ غریب ممالک میں 90 فیصد لڑکیاں اور کم عمر خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں جبکہ وہاں مردوں کے آن لائن ہونے کا امکان دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔یونیسف کے ڈائریکٹر برائے تعلیم رابرٹ جینکنز نے کہا ہے کہ ”لڑکیوں اور لڑکوں کے مابین ڈیجیٹل عدم مساوات کا خاتمہ محض انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک رسائی سے کہیں بڑا معاملہ ہے۔ اس کا تعلق لڑکیوں کو اخٹراع کار، تخلیق کار اور رہنما بننے کے لئے بااختیار بنانے سے ہے۔اگر ہم افرادی قوت کی منڈی، خصوصاً سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاض کے شعبوں (سٹیم) میں صں فی فرق کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِسی وقت نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کو ڈیجیٹل صلاحیتوں کے حصول میں مدد دینے سے آغاز کرنا ہو گا۔”AMN