
نئی دہلی (ظل الرحمن حیدر): اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کی زندگی اور شاعری پر عربی زبان میں پہلی کتاب “غالب: أعظم شعراء الهند” (غالب، ہندوستان کاسب سے بڑے شاعر) کا اجرا یہاں جمعہ کے روز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انڈیا-عرب کلچرل سینٹر میں ہوا۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اس تقریب میں موجود تھے۔
کتاب کی رونمائی کی تقریب کی صدارت جامعہ کے عربی شعبہ کے صدر پروفیسر نسیم اختر نے کی۔ اس موقع پر شعبہ عربی کے اساتذہ حبیب اللہ خان، عبدالماجد قاضی، محمد ایوب ندوی، فوزان احمد، اورنگزیب اعظمی، حیفا شاکری، صہیب احمد اور محفوظ الرحمن کے علاوہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر مجیب الرحمن اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ بھی موجود تھے۔
پروفیسر حبیب اللہ نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام کی غالب پر لکھی گئی یہ کتاب اپنی نوعیت کی واحد کوشش ہے اور صرف ان جیسا شخص ہی اتنا مشکل کام انجام دے سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اس کتاب کا آغاز اقبال کے ان اشعار سے کیا ہے، جو غالب کے بارے میں بہت موزوں ہیں:
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
پروفیسر حبیب اللہ خان نے مصنف اور کتاب کی بہت تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام ایک اعلی درجے کے مترجم اور اسکالر ہیں۔ وہ نہ صرف بھارت میں معروف اور مشہور ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مقولہ سنا ہے کہ “کام عبادت ہے”، لیکن ڈاکٹر ظفرالاسلام اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ 32 سالوں سے جامعہ سے وابستہ ہیں اور ڈاکٹر ظفرالاسلام کے ساتھ ان کا ایک طویل اور نتیجہ خیز تعلق رہا ہے۔ جب بھی انہوں نے کسی معاملے پر ڈاکٹر ظفرالاسلام کی رہنمائی چاہی ہے، انہوں نے مسکراتے ہوئے مدد فراہم کی۔

ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو ،بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا ،محفل سے پنہاں بھی رہا
پروفیسر حبیب اللہ نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے غالب کےان اشعار کا لفظی ترجمہ نہیں کیا ہےبلکہ ان کے معنی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیے ڈاکٹر ظفرالاسلام نے نہایت آسان اور سادہ زبان استعمال کی ہے اور اسے بہت اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ مکمل کیا ہے۔
پروفیسر حبیب اللہ نے مزید کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اس کتاب میں جو کام پیش کیا ہے وہ اتنا عمدہ ہے کہ صرف ایک ہندوستانی ہی غالب کی شاعری اور اردو زبان کے نازک نکات کی گہری سمجھ رکھنے والا اس کام کو انجام دے سکتا تھا۔
پروفیسر عبدالماجد قاضی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام بے حد تعریف کے مستحق ہیں۔ یہ ایک ہفتے کے اندر دوسری بار ہے کہ مجھے اس طرح کے موقع پر ان کے ساتھ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ دنیا مرزا غالب کو ا چھی طرح جانتی ہے۔۱۹۶۹ میں غالب کی صد سالہ تقریبات کے دوران، غالب کی شاعری کے ماہرین دنیا بھر سے دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ غالب ایک شاندار اور بے مثال شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کا ہر شعر لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گیا ہے، اور جو چیزیں مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں، وہی سب سے زیادہ کارآمد اور باقی رہنے والی ہوتی ہیں۔ غالب کے اشعار عام و خاص کی زبان پر ہیں، اور یہی چیز انہیں مقبول اور منفرد بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غالب کا ایک شعر انسان کو ایک حالت سے دوسری حالت میں پہنچا سکتا ہے۔ غالب نہ صرف ہماری ایک ثقافتی ضرورت ہیں بلکہ وہ پوری دنیا کے لیے ناگزیر ہیں۔ انہوں نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ جب کسی نے غالب کی فارسی شاعری کی تعریف میں ان کے لئے لفظ “حرامزادہ” استعمال کیا تو غالب نے جواب دیا کہ انہیں اپنی شاعری کے لیے اس سے بہتر داد کبھی نہیں ملی۔
پروفیسر قاضی نے کہا کہ اشعار کا ترجمہ کرنا آسان نہیں ہے، لیکن ڈاکٹر ظفر الاسلام کے پاس اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری استعدد اور تجربہ موجود ہے۔ شاعری کی زبان بہت وسیع ہوتی ہے، جو کئی ثقافتی دائروں کو اپنے اندر سموئے ہوتی ہے۔ ہر ثقافت کا اپنا لسانی ماحول ہوتا ہے، اور جو شخص اس ماحول میں رہتا ہے، وہی اس کی باریکیوں کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ فارسی اور اردو نے ایک دوسرے کے لسانی ماحول سے بہت فائدہ اٹھایا ہے لیکن عربی کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ شاعری میں صوتی ہم آہنگی آپ کے کانوں میں گونجتی ہے اور آپ کی توجہ حاصل کر لیتی ہے ۔ یہ خصوصیات ترجمے میں مکمل طور پر منتقل نہیں کی جا سکتیں کیونکہ ترسیل کے دوران شعر کے محاسن متاثر ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر قاضی نے کہا کہ اس کے باوجود، اگر کوئی اس کام کو انجام دے سکتا تھا تو وہ ڈاکٹر ظفر الاسلام ہیں۔انہوں نے کہا کہ غالب کو اس کتاب کے ذریعے عربی قراء سے بہت اچھے طریقے سے متعارف کروایا گیا ہے۔
پروفیسر قاضی نے کہا کہ غالب اپنے وقت میں ایک مفلس شاعر تھے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی زندگی دہلی میں کرائے کے مکان میں گزار دی۔ لیکن زمانے کی ایک منفرد الٹ پھیر میں، آج وہ اسی مکان کے مالک ہیں۔ دہلی حکومت نے اس مکان کو خرید کر اسے “غالب کی حویلی” کا نام دےدیا اور اسے ان کی زندگی اور شاعری پر مبنی ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ ایسے واقعات ادب اور فن کی تاریخ میں کم ہی ملتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ غالب جیسی بڑی شخصیت کے ہونے کے باوجود دہلی کے ہوائی اڈے کو ان کے نام سے منسوب نہیں کیا گیا۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ ان کا جامعہ کے شعبہ عربی سے بہت پرانا تعلق ہے۔ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ پہلے، انہوں نے یہاں تحقیق کے طریقہ کار پر لیکچر دیے تھے، جو بیروت میں “دلیل الباحث” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے اور بعد میں “اصول تحقیق” کے نام سے اردو میں بھی شائع ہوئے۔
غالب پر اپنے کام کو یاد کرتے ہوئےانہوں نے بتایا کہ انہوں نے غالب پر مضامین مصر کے اعلیٰ ادبی جریدہ المجلۃ اور قاہرہ ریڈیو کے “البرنامج الثاني“ کے لیےبیسویں صدی کے چھٹی دہائی کے اواخر میں لکھے تھے جب وہ قاہرہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے اسی وقت یہ کتاب بھی لکھی تھی، لیکن کسی طرح یہ اب جا کر شائع ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ جو لوگ دیگر زبانیں جانتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ ترجمہ کریں تاکہ انکی زبان کی بہترین تخلیقات دوسروں تک پہنچیں اور دوسری زبانوں کی بہترین تخلیقات وہ اپنی زبان میں منتقل کریں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کی اردو کتاب “علمِ جدید کا چیلنج“ کا عربی میں ترجمہ “الإسلام يتحدى“ کے نام سے کیا تھا، جو عرب دنیا میں بے حد مقبول ہوا اور آج بھی مقبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ترجمے اصل کتاب سے زیادہ مقبول ہو جاتے ہیں جیسے کہ پنچ تنتر کا عربی ترجمہ جو آج بھی “کلیلہ و دمنہ“ کے نام سے مشہور ہے اور برصغیر کے بہت سے عربی مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کا اصل سنسکرت متن فراموش کر دیا گیا ہے جبکہ عربی ترجمہ آج بھی مقبول ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ عربی کے صدر پروفیسر نسیم اختر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ شعبہ اس اہم کتاب کے اجراء پر فخر محسوس کرتا ہے، جو غالب پر عربی زبان میں پہلی کتاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام کے ساتھ ہمارا بہت پرانا تعلق ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ تعلق مستقبل میں بھی قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ غالب پر لکھنا آسان نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے کوشش کی لیکن وہ رک گئے، اس خوف سے کہ ان کی خامیاں آشکار نہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ غالب تضادات کا مجموعہ ہیں۔ یہاں بیٹھے ہر شخص کو غالب کے کچھ اشعار ضرور یاد ہوں گے۔ غالب کی شاعری میں ایک ا نفرادیت ہے۔ ان کے خیالات روایتی ہو سکتے ہیں لیکن ان کے اظہار کی خوبصورتی بینظیر ہے۔بطور مثال، انہوں نے درج ذیل شعر پیش کیا:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور