نئی دہلی: 12دسمبر ،2024
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نے اجمیر کی درگاہ پر مندر ہونے کے دعوے کو کیا مسترد اور کہا عدالتوں کو اس طرح کے بے بنیاد اور جھوٹے دعوؤں کو قابل اعتناء ہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون ’’پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱‘‘ کی موجودگی میں اگر اسی طرح کے دعوؤں کو عدالتیں قبول کر تی رہیں اور ان پر سروے وغیرہ کے آرڈر پاس کرتی رہیں تو اندیشہ ہے کہ اس سے ملک میں لاقانونیت اور انارکی کو ہی ہوا ملے گی۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کےوفد کے اجمیر ایک پریس کانفریس کے دوران کیا۔


آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک وفد جس کی قیادت بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا شاہ محمد فضل الرحیم مجددی نے کی اور جس میں ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مولانا ابوطالب رحمانی رکن عاملہ بورڈ اور جناب ناظم الدین صاحب امیرحلقہ، جماعت اسلامی، راجستھان شریک تھے، نے درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ، اجمیر کا دورہ کیا اور درگاہ کمیٹی و سجادگان سے ملاقات کی اور درگاہ پر کئے گئے مقدمہ پر اظہار افسوس کیا۔ وفد نے ذمہ داران درگاہ کو یقین دلایا کہ بورڈ نہ صرف اخلاقی طور پران کے ساتھ ہے بلکہ وہ ہر قسم کی قانونی، سیاسی اور دستوری لڑائی میں ہر طرح سے ساتھ دے گا۔

بعد ازان سجادگان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بورڈ نے واضح طور پر کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اجمیر کی تاریخی درگاہ پر بے بنیاد دعوے کو پوری طرح مسترد کرتا ہے، اسے اس بات پر سخت حیرت اور تشویش ہے کہ تاریخی شواہد اور قانونی دستاویزات اور ۱۹۹۱ کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی موجودگی کےباوجود کس طرح اجمیر کی مقامی عدالت نے اسے قبول کرکے اس پر نوٹس جاری کر رہی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات پر سخت برہمی اور تشویش کا اظہار کر تا ہے کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں یکے بعد دیگرےمساجد اور درگاہوں پر دعوؤں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ابھی سنبھل کی جامع مسجد کا معاملہ تھما ہی نہیں تھا کہ عالمی شہرت یافتہ اجمیر کی درگاہ پر سنکٹ موچن مہادیو مندر ہو نے کا دعویٰ کر دیا گیا۔ شکایت کنندہ نے درگاہ کمیٹی، مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور اور مرکزی محکمہ آثار قدیمہ کو مدعا علیہ بنا یا ہے۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991کی موجودگی میں اس طرح کے دعوے قانون اور دستور کا کھلا مذاق ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون لاتے وقت یہ واضح کیا گیا تھا کہ 15 اگست1947 کو جس عبادت گاہ کی(مسجد، مندر، گرودوارہ، بودھ وہار، چرچ وغیرہ) کی جو پوزیشن تھی وہ علیٰ حالہ باقی رہے گی اور اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ دراصل اس کا مقصد بالکل واضح تھا کہ بابری مسجد کے بعد اب کسی اور مسجد یا دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنا یا جا سکے۔ تاہم یہ انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ گیان واپی مسجد، وارانسی، متھرا کی شاہی عیدگاہ، بوجھ شالہ مسجد، (مدھیہ پر دیش)، ٹیلے والی مسجد لکھنؤ، سنبھل کی جامع مسجد اور جونپور کی مسجد کے ساتھ ساتھ اجمیر کی تاریخی درگاہ پر بھی دعویٰ کر دیا گیا۔ مزید بر آں یہ کہ اس قانون کے ہو تے ہوئے عدالت نے عرضی گزار وشنو گپتا کی درخواست کو نہ صرف سماعت کے لئے منظور کرلیا بلکہ اس پر فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیا۔ ہندوفریق نے دعویٰ کیا کہ درگاہ کی زمین پر بھگوان شیو کا مندر تھا ،جس میں پوجا اور جل ابھیشیک ہوا کر تا تھا۔
‎ بابری مسجد کیس کے دوران سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے نہ صرف یہ کہ اس قانون کا حوالہ دیا تھا بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ اس ایکٹ کی موجودگی میں کوئی نیا دعویٰ پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ لیکن جب گیان واپی مسجد پر نچلی عدالت نے دعویٰ قبول کر لیا تو مسلم فریق عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ کہہ کر اپنا کیس لے گیا کہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی موجودگی میں اس دعویٰ کو عدالت کو قبول نہیں کر نا چاہیے تاہم عدالت نے اس پر نرمی اختیار کر لی کہ سروے کئے جانےسے 1991کے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو تی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب متھرا کی شاہی عید گاہ، گیان واپی مسجد، لکھنؤ کی ٹیلہ والی مسجد،سنبھل کی جامع مسجد، جونپور کی مسجد اور اب اجمیر شریف کی درگاہ پر دعویٰ کر دیا گیا۔ اجمیر کی درگاہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکی شخصیت صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کے لئے بھی یکسان طور قابل احترام و عقیدت ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر اس سلسلہ کو نہیں روکا گیا تو یہ ملک میں انتشاراور بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون’’ پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱‘‘ کو سختی سے نافذ کریں۔
پریس کانفرنس کو مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس اور مولانا ابو طالب رحمانی نے مخاطب کیا۔ ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیئے۔ آخر میں درگاہ کمیٹی کی جانب سے مولانا سرور چشتی صاحب نے اس اظہار یکجہتی کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا تہہ دل سے شکر یہ ادا کیا اور بورڈ کے ساتھ مل کر کام کر نے پر اتفاق کیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پلیسیس آف ورشپ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے زیر بحث مقدمہ کے دوران کسی نئی درخواست کو عدالتوں میں رجسٹرڈ کرنے ، پہلے سے زیر سماعت مقدمات پر کوئی مؤثر یا حتمی فیصلہ دینے یا سروے کا آرڈر دینے پر روک لگادی ہے۔ البتہ عدالت نے ان مقدمات پر اسٹے لگانے سے منع کیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کورٹ کے اس عبوری فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ کی موجودگی کے باوجود مقامی عدالتیں جس طرح یکے بعد دیگرے مساجد اور درگاہوں پر اپیلوں کو قابل سماعت قراردے کر جس طرح کے آرڈر پاس کررہی تھیں اس نے اس پورے قانون کو ہی بے معنیٰ بنادیا تھا۔ عدالت عظمی ٰ نے نہ صرف اس مقدمہ کی اگلی تاریخ تک کسی بھی مؤثر اور حتمی فیصلہ پر روک لگائی ہے بلکہ سروے کے آرڈر پر بھی امتناع عائد کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ واضح کیا کہ اب کوئی نیا مقدمہ اس وقت تک رجسٹرڈ نہ کیا جائے جب تک کہ اس پر سپریم کورٹ کوئی واضح فیصلہ نہ کردے۔
کورٹ نے یہ واضح کیا کہ پہلے سے طے شدہ اصول یعنی سول کورٹ عدالت عظمیٰ کے متوازی فیصلے نہیں کرسکتی ۔ اس لیے اس پر اسٹے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جب کہ اس پر پانچ ممبر بنچ کا فیصلہ پہلے سے موجود ہے۔ ا س ایکٹ کو 2020میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر کورٹ نے مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے کہا تھا۔ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے اپنا جواب داخل کرنے کے لیے کہا ہے جسے ویب سائٹ پر ڈالا جائے گا تاکہ کوئی بھی اسے پڑھ سکے۔ اس مقدمہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے علاوہ مزید کئی لوگ شامل ہیں۔
توقع ہے کہ اس حکم امتناء سے پورے ملک میں مساجد اور درگاہوں کے خلاف شر پسندوں کی حرکتوں پر روک لگے گی۔ البتہ عدالت عظمیٰ کوپلیسیس آف ورشپ ایکٹ پر جلد ازجلد ایک واضح اور مثبت موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ ملک میں قانون کی حکمرانی بحال ہوسکے اور انتشار اور بدامنی کی کوششوں پر روک لگ سکے۔