ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

بھارت کے دستور کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین بی آر امبیڈکر نے دستور کا مکمل اور فائنل ڈرافٹ آئینی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے انتباہی لب و لہجہ میں کہا تھا: ”آپ چاہے جتنا اچھا دستور بنالیں، جن کو اسے لاگو کرنا ہے وہ اگر اچھے نہیں ہیں تو یہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے خراب دستور ثابت ہوگا، اور ایک دستور جتنا بھی خراب ہو اس کو نافذ کرنے والے لوگ اچھے ہیں تو وہ اچھا ثابت ہوگا۔“


یہ قول اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بظاہر دستور کے الفاظ، جملوں کی ترتیب اور اعلیٰ خیالات کا تحریری اظہار محض پرشکوہ الفاظ کا مقبرہ ثابت ہوسکتا ہے اگر اس کو زندگی، حرکت، قوت اور نافذ کرنے والے ہاتھ کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ دستور ناقص ثابت ہوگا اور اس کے خراب نتائج نکلیں گے۔


میں 15 دسمبر 2024 کو پارلیامنٹ میں دستور ہند کے پچھتر سال پورے ہونے پر جو بحث ہورہی تھی اس کو سن رہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر اور جان کر بہت افسوس ہوا کہ اتنے اہم علمی موضوع پر بحث ہورہی تھی اس میں ایک بھی تقریر ایسی نہیں تھی جو علم و فکر کو جلا بخشنے والی ہوتی بلکہ بازاری پن اور توتو میں میں اس پوری بحث کا خلاصہ تھا۔ کسی ایک ممبر آف پارلیامنٹ نے چاہے وہ سرکاری بینچ کا آدمی ہو یا حزبِ اختلاف کا اس نے دستو رکے اقدار (Constitutional Morality)پر بات نہیں کی بلکہ دیہات میں جیسے دو عورتیں لڑتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی پشتوں کو گالیاں دیتی ہیں وہی منظر پارلیامنٹ میں دیکھنے کو ملا۔


مجھے سب سے زیادہ مایوسی وزیر اعظم مودی کے بھاشن سے ہوئی۔ انھوں نے ایک گھنٹہ پچاس منٹ کی تقریر کی اس پوری گفتگو میں کوئی ایک جملہ ایسا نہیں تھا جو پردھان منتری کی سمویدھان کی سمجھ کو درشاتا ہے۔ بلکہ ان کی گفتگو کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو دستور سے پرے ان کامخصوص ذہنی فریم ورک ابھر کر سامنے آتا ہے تو بھارت کو ایک ایسے تاریک سرنگ میں لے جائے گا جس کے دوسرے سرے پر تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پہلی بار مجھے پردھان منتری کے چہرے پر تکان کے آثار نظر آئے۔ ان کے لب ولہجہ میں گرچہ وہ بہت زور دے کر اپنی بات کہہ رہے تھے مگر اعتمادکی کمی نظر آئی اور دل و زبان میں جب فرق ہوتا ہے تو لب و لہجہ میں جو ایک فطری بہاؤ ہوتا ہے وہ نظر نہیں آرہا تھا بلکہ ان کو اپنی بات کہنے کے لیے اندر سے پورا زور لگانا پڑرہا تھا۔ پھر بھی ان کو لگ رہا تھا کہ وہ لوگوں کو اپنی باتو ں سے کنوینس نہیں کرپارہے ہیں۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ پارلیامنٹ میں نہیں الیکشن ریلی میں بول رہے تھے۔ میں ان لوگوں کی بات نہیں کررہا ہوں جو اَندھ بھکت ہیں، میں ان لوگو ں کی بات کررہا ہوں جو پرائم منسٹر اور ان کی آفس کو وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کو ہمارے پردھان منتری نے مایوس کیا ہے۔ اکثر جواہر لال نہرو سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جواہر لال وہ تھے جنھوں نے وزیر اعظم کی کرسی کو وقار عطا کیا اور مودی جی اس لیے باوقار ہیں کیونکہ وہ آج کی تاریخ میں وزیراعظم کی کرسی پر وراج مان ہیں اور جو بھی اس کرسی پر بیٹھے گا وہ آدرنیہ ہوجائے گا اس لیے کہ اس کرسی کے ساتھ آدرنیہ شبد جڑا ہوا ہے۔ وہ چاہے چرن سنگھ ہوں، دیو گوڑا ہوں، وی پی سنگھ ہوں، چندر شیکھر ہوں، نرسمہا راؤ ہوں، اٹل بہاری باجپئی ہوں یا پھر نریندر مودی جی۔ پروٹوکول کو اگر پرائم منسٹر کہتے ہیں تو ان کے باوقار ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔


اس بحث سے ایک چیز واضح ہے کہ آزادی کے ان پچھتر سالوں میں ہر حکومت اور ہر حکمران نے اپنی سیاسی ترجیحات اور سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے اور اقتدار میں بنے رہنے کے لیے دستور میں ترمیمات کیں ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعض ترمیمات ایسی ہیں جن کو ترمیم کہنا غلط ہوگا بلکہ اس کو دستور کا مثلہ کرنا کہا جائے گا یعنی اس کی ناک کاٹ کر اس کی صورت بگاڑنے کی کوشش ہے۔ ہمارے پردھان منتری نے آرٹیکل 370 کا ذکر کیا اور سینہ ٹھوک کر کہا کہ ہم نے راشٹریہ ہِت میں یہ کام کیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے سمویدھان میں کچھ ایسے بھی کلاز ہیں جو راشٹریہ ہت کے خلاف ہیں۔ ایسی صورت میں اس سمویدھان کی پوری اسکروٹنی ہونی چاہیے کہ کیا چیز اس میں راشٹریہ ہت کے مطابق ہے اور کیا نہیں ہے۔ کیا جموں کشمیر سے 370 ہٹانے کا مطلب اس کو دو حصوں میں بانٹنا اور اس کے ریاست کے درجہ کو ختم کرکے اس کو علاقہ زیرِ مرکز بنادینا یہ بھارت کے فیڈرل اسٹرکچر کو کمزور کرنا ہے یا اس کو مضبوط کرنا ہے۔ ابھی تک یہ ہوتا رہا تھا کہ جو علاقہ زیرِ مرکز تھے ان کو باضابطہ ریاست بنایا گیا۔ دیس میں پہلی بار الٹی گنگا بہائی گئی کہ جموں و کشمیر کے لوگو ں کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے ریاست کے درجہ کو گھٹا دیا گیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس پر مہر لگادی۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ اس نے Basic Structure میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ موجودہ حکومت مسلسل اس کو بدلنا چاہتی ہے۔ ون نیشن اور ون الیکشن کی بات بیسک اسٹرکچر پر ایک بڑا حملہ ہے۔ بھارتیہ سمویدھان کب تک اپنی موجودہ صورت میں بنا رہے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ایک نہ ایک دن دیش کو یہ منحوس خبر سننی پڑے گی کہ بھارتیہ سمویدھان کا دیہانت ہوگیا ہے۔ اس کے لیے دیش کے لوگوں کو تیار رہنا ہے۔ سمویدھان کی موریلٹی تو کب کی ختم ہوگئی ہے جن کے ہاتھوں میں دیش کی ستّا ہے وہ ان کھوکھلے الفاظ کو بھی بدل دیں گے اس کے آثار واضح ہیں۔


جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنانے کا مقصد اگر وہاں ایک چنی ہوئی سرکار بنائی بھی جاتی ہے تو قوی امکان ہے کہ یا تو حکومت نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کی ہوگی لہٰذا حکومت کے تمام انتظامی اختیارات حکومتِ ہند اور ایل جی کے ہاتھوں میں ہوں گے اور ایک لولی لنگڑی سرکار جمہوریت کے نام پر چلائی جائے گی۔ حکومت ہند نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ وقت آنے پر جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کردے گی۔ مگر میرا خیال ہے کہ مودی حکومت اس کو بحال نہیں کرے گی۔ بہرحال یہ حکومت ہند اور کشمیر کا مسئلہ ہے۔ یہ نیشنل ایشو ہے اس کو کمیونل اینگل سے دیکھنا صحیح نہیں ہے تاہم حکومت اس کو بھی کمیونل انگل سے نہیں دیکھتی ہے۔ مجھے ایک سوال کا جواب نہیں ملا۔ جب نظام حیدرآباد اور نواب جونا گڑھ نے بھارت میں الحاق کرنے سے انکار کردیا تو ان پر پولیس ایکشن ہوا اور باضابطہ طاقت کا استعمال کرکے ان ریاستوں کا بھارت میں الحاق کردیا گیا جس کی وجہ سے سردار پٹیل لوہ پرش کہلائے۔ مگر جب مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے بھارت میں الحاق سے انکار کردیا تو اس وقت فوجی ایکشن کیوں نہیں ہوا۔ اگر یہ ایکشن برقت ہوا ہوتا تو بھارت کو قبائلی حملوں کی وجہ سے آدھا کشمیر گنوانا نہیں پڑتا۔ کیا اس کے پیچھے سردار پٹیل کا دہرا معیار تھا یا کچھ اور۔ جو لوگ کشمیر معاملات کے زیادہ جانکار ہیں وہ اگر ملک کو اس مسئلہ پر صحیح رہنمائی کریں تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔


دستو رپر بحث کے دوران دوسری بات جو بہت واضح طور پر اور کھلے الفاظ میں ابھر کر سامنے آئی کہ بھارت سرکار کے پاس ملک کے ہر طبقہ اور خطہ کے لیے کچھ نہ کچھ اسکیم ہے اور وہ صحیح معنوں میں ان کی بھلائی اور اتھان کے لیے کام کرنا چاہتی ہے لیکن نہیں ہے تو مسلمانوں کے لیے نہیں کیونکہ بھارت کا سمویدھان دھرم کے نام پر آرکچھن یا اور کوئی لابھ دینے سے روکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندو دھرم اور دیش کے اور دھرموں نے ناستکتا کا چولا پہن لیا ہے اس لیے ان کا دھرم ان کی آستھا کسی سرکاری یوجنا سے لابھ اٹھانے یا ان کے لیے کوئی یوجنا بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ آپ نے بہار کے ایک جے ڈی یو ایم پی کا ایک بیان سنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں اور یادوں کا کام نہیں کریں گے۔ ایک منسٹر صاحب ہیں مودی کیبنٹ میں وہ بھی جے ڈی یو سے ہی تعلق رکھتے ہیں انھوں نے بھی مسلمانوں کے ایک ڈیلیگیشن سے صاف صاف کہا کہ مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا اس لیے ان کی وقف ایکٹ میں حمایت نہیں کی جائے گی۔ یوگی آدتیہ ناتھ، آسام کے چیف منسٹر بسوسرما، اتراکھنڈ کے دھامی اور ایم پی کے چیف منسٹر کوئی ایک کا بدلہ دس سے، کوئی ان کو دیس نکالا کرکے، کوئی یونی فورم سول کوڈ لاکر اور کوئی چھاتی پر پاؤں رکھ کر اپنی بات منوانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ مہاراشٹرکے مکھیہ منتری شری دیویندر فرنویس نے صاف صاف کہا کہ میں مسلمانوں کے لیے نہ کوئی کام کرتا ہوں اور نہ کروں گا۔ کہنے کا مطلب صاف ہے کہ بھارت سرکار کے پاس مسلمانوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آپ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ کھانا بانٹ رہے تھے اس لائن میں ایک مسلمان عورت بھی تھی اس سے کہا گیا کہ وہ جئے شری رام بولے تبھی اس کو کھانا ملے گا۔ اس نے انکار کیا تو اس کو کھانا نہیں دیا گیا۔ یہی اس وقت کی سرکاری پالیسی ہے۔ میں مرکزی اور تمام ریاستی سرکاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک مہربانی کریں ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہیے۔