عالمی معیشت اس ہفتے مختلف عوامل کے زیر اثر رہی، جس میں توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، اسٹاک مارکیٹوں کا محتاط رویہ، اور مختلف ممالک کی جانب سے جاری کردہ معاشی اعداد و شمار شامل ہیں۔ خام تیل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے پیداوار میں ممکنہ کمی کے اشارے ہیں۔ اس صورتحال نے عالمی سطح پر مہنگائی کے خدشات کو تقویت بخشی ہے، حالانکہ بعض ممالک میں افراط زر کی شرح میں استحکام بھی دیکھا گیا ہے۔
بھارتی اسٹاک مارکیٹوں نے اس ہفتے ایک محتاط رویہ اختیار کیا، جہاں کچھ دنوں میں تیزی اور کچھ میں مندی دیکھنے میں آئی۔ سرمایہ کار عالمی معاشی صورتحال اور گھریلو عوامل کا جائزہ لیتے رہے، جس میں کمپنیوں کے سہ ماہی نتائج اور حکومتی پالیسیاں شامل ہیں۔ بینکنگ اور آئی ٹی کے شعبوں میں ملا جلا رجحان رہا، جبکہ فارما اور توانائی کے شعبوں میں کچھ بہتر کارکردگی دیکھنے میں آئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ کاری کے رجحان پر بھی قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔
حکومت ہند نے ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لیے کچھ اہم اعلانات کیے ہیں۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترغیب دینے کے لیے ایک نئی اسکیم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کا مقصد ملکی پیداوار میں اضافہ کرنا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (ایس ایم ایز) کو سہارا دینے کے لیے بھی کچھ اقدامات کا اعلان متوقع ہے، جن میں قرض کی فراہمی اور ٹیکس میں چھوٹ شامل ہو سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں عالمی سطح پر ریگولیٹری اداروں کی جانب سے بڑی کمپنیوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ڈیٹا کی رازداری اور صارف کے حقوق کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر، ٹیک کمپنیوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا پڑ سکتی ہے، جس کا ان کے کاروباری ماڈل پر اثر پڑنے کا امکان ہے۔
افراط زر کے اعداد و شمار نے اس ہفتے کچھ ممالک میں استحکام کا رجحان ظاہر کیا، جس کے باعث مرکزی بینکوں پر شرح سود میں مزید اضافے کا دباؤ کم ہوا ہے۔ تاہم، عالمی سطح پر مہنگائی اب بھی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے، اور خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ معاشی استحکام کے لیے خطرہ ہے۔
مختلف بڑی کمپنیوں کی جانب سے جاری کردہ سہ ماہی آمدنی کی رپورٹس میں ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔ کچھ کمپنیوں نے توقعات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جبکہ کچھ کو عالمی معاشی سست روی اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان نتائج سے مختلف سیکٹرز کی مجموعی صحت کے بارے میں ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
صارفین کے اخراجات میں تہواروں کے موسم سے قبل معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، لیکن مہنگائی کے دباؤ کے باعث یہ اضافہ محدود رہا۔ خوردہ فروشوں کو امید ہے کہ آنے والے ہفتوں میں خریداری میں مزید تیزی آئے گی۔
روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اس ہفتے نسبتاً مستحکم تجارت کی، حالانکہ عالمی معاشی صورتحال اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے رجحان پر اس کی قدر کا انحصار برقرار ہے۔ بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر مختلف ممالک کے درمیان بات چیت جاری ہے، لیکن اب تک کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ تحفظاتی پالیسیوں اور تجارتی تنازعات کے عالمی معیشت پر اثرات بدستور موجود ہیں۔
چھوٹے کاروباروں نے بڑھتی ہوئی آپریشنل لاگت، خاص طور پر توانائی اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کاروباروں کو حکومت کی جانب سے مزید مالی امداد اور ٹیکس میں چھوٹ کی امید ہے۔
ملکی سطح پر دیگر اہم خبروں میں، آٹوموبائل سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی توقع ہے، جس سے نہ صرف پیداوار بڑھے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ زرعی شعبے میں حکومت نے کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور فصلوں کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے نئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ایک طویل عرصے کے بعد استحکام کے آثار نظر آ رہے ہیں، اور قیمتوں میں نمایاں اضافے کے بجائے ایک متوازن صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔
مجموعی طور پر، اس ہفتے عالمی اور ملکی معیشت میں مختلف النوع رجحانات دیکھنے میں آئے، جہاں کچھ شعبوں میں مثبت پیش رفت ہوئی تو کچھ میں چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ سرمایہ کار اور کاروباری افراد آئندہ ہفتوں میں معاشی اشاریوں اور پالیسی فیصلوں پر گہری نظر رکھیں گے۔