ڈھاکہ سےذاکر حسین

جولائی تحریک کے طالب علم رہنما اور انقلاب منچو کے ترجمان شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد بنگلہ دیش شدید بدامنی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ 32 سالہ نوجوان رہنما جمعرات کی رات سنگاپور میں گولیوں کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے، جس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اس قتل نے احتجاج، آتش زنی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے، جس سے 12 فروری 2026 کو متوقع قومی انتخابات سے قبل امن و امان پر سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

ڈھاکہ، چٹاگانگ، بریشال اور دیگر بڑے شہروں میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے شاہراہوں اور اہم چوراہوں کو بند کر دیا اور ہادی کے قتل میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری اور سخت سزا کا مطالبہ کیا۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں، جمعرات کی رات تقریباً 10 بجے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ رہائشی ہالز سے نکل آئے اور “ہم سب اب ہادی ہیں” اور “غلامی یا آزادی، آزادی آزادی” جیسے نعرے لگاتے ہوئے انسداد دہشت گردی راجو میموریل مجسمے پر جمع ہو گئے۔ یونیورسٹی کیمپس مظاہرین سے بھر گیا، جن میں سے کئی اشک بار تھے۔ طلبہ نے ہادی کی موت کو مزاحمت کی علامت قرار دیا۔

جلد ہی مظاہرے شاہ باغ، بنگلا موٹر اور کرون بازار تک پھیل گئے جہاں صورتحال پرتشدد ہو گئی۔ مشتعل مظاہرین نے ملک کے دو بڑے اخبارات پروتھم آلو اور دی ڈیلی اسٹار کے دفاتر پر حملہ کر کے آگ لگا دی۔ دی ڈیلی اسٹار کے دفتر میں آگ لگنے کے باعث 30 سے 35 صحافیوں اور عملے کے افراد کو چھت پر پناہ لینا پڑی، جہاں سے انہیں فائر سروس نے رات تقریباً 2 بجے بچایا۔ بعد ازاں عمارت کے سامنے فوجی اہلکار تعینات کر دیے گئے۔ فائر سروس تقریباً 2:30 بجے سے قبل پروتھم آلو کے دفتر پہنچی اور کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد آگ پر قابو پایا۔ دونوں اخبارات نے پرنٹ اور آن لائن اشاعت عارضی طور پر معطل کر دی ہے۔

ثقافتی اداروں اور سیاسی مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دھان منڈی میں واقع معروف ثقافتی ادارے چھایانٹ میں توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی گئی، جبکہ دھان منڈی-32 میں شیخ مجیب الرحمن کی تاریخی رہائش گاہ کو رات تقریباً 1:30 بجے آگ لگا دی گئی۔ سابق عوامی لیگ رہنماؤں سے منسلک گھروں پر بھی حملے ہوئے، جن میں چٹاگانگ میں سابق وزیر تعلیم محبُل حسن چوہدری نوفیل کی رہائش گاہ اور اُتّرا میں سابق ڈھاکہ-18 کے رکنِ پارلیمنٹ حبیب حسن کے بھائی کا گھر شامل ہے۔ ڈھاکہ–چٹاگانگ اور ڈھاکہ–بریشال سمیت اہم شاہراہیں کئی گھنٹوں تک بند رہیں، جس سے سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں، تاہم مظاہرین نے ایمبولینسوں کو گزرنے کی اجازت دی۔

جمعہ کی صبح تک احتجاج جاری رہا اور شاہ باغ کو ایک بار پھر بند کر دیا گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین کی قیادت میں الگ الگ ریلیاں نکالی گئیں۔ بنگلہ دیش میڈیکل یونیورسٹی سمیت حساس تنصیبات کے اطراف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تعینات کر دیا گیا۔

جولائی تحریک کے نمایاں رہنما اور ممکنہ پارلیمانی امیدوار شریف عثمان ہادی کو 12 دسمبر کو ڈھاکہ کے بجوئے نگر علاقے میں رکشے پر سفر کے دوران قریب سے گولی مار دی گئی تھی۔ موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ پہلے ڈھاکہ میں ان کا ہنگامی علاج کیا گیا، بعد ازاں انہیں سنگاپور منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں کی جانب سے “بھرپور کوششوں” کے باوجود وہ 18 دسمبر کو دم توڑ گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شوٹر اور موٹر سائیکل چلانے والے کی شناخت ہو چکی ہے اور ان کی گرفتاری میں مدد دینے والی معلومات پر 50 لاکھ ٹکا انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

یونُس کی اپیل برائے امن

چیف ایڈوائزر محمد یونُس کی قیادت میں عبوری حکومت نے عوام سے امن اور ضبط کی اپیل کی اور ہجوم کی تشدد آمیز کارروائیوں کے خلاف خبردار کیا۔ حکومتی بیان میں کہا گیا، “ہم اس تاریخی جمہوری تبدیلی کو اُن عناصر کے ہاتھوں سبوتاژ نہیں ہونے دے سکتے جو انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔” حکومت نے آئندہ انتخابات اور ریفرنڈم کو ہادی کے نظریات سے جڑی ہوئی “قومی مقدس ذمہ داری” قرار دیا۔ حملوں سے متاثرہ صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت نے مکمل انصاف کی یقین دہانی کرائی۔ محمد یونُس نے ذاتی طور پر پروتھم آلو اور دی ڈیلی اسٹار کے مدیران سے گفتگو کی اور کہا، “یہ آزاد صحافت پر حملہ ہے اور بنگلہ دیش کی جمہوری پیش رفت کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔”

سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے متفقہ طور پر تشدد کی مذمت کی۔ بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے حملہ آوروں کو “ملک کے دشمن” قرار دیا، جبکہ جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمٰن نے صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد کے لیے ضبط ضروری ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں کام کرنے والے بنگلہ دیشی صحافیوں کی تنظیم (BJIM) نے حکومت سے صحافیوں کی سلامتی اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

بین الاقوامی ردِعمل بھی فوری طور پر سامنے آیا۔ ڈھاکہ میں امریکی سفارت خانے نے کہا کہ وہ شریف عثمان ہادی کی موت پر بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ سوگ میں شریک ہے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتا ہے۔ بھارت نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی “تیزی سے بدلتی اور ارتقا پذیر” اندرونی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، تاہم وہ داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بدامنی فروری کے انتخابات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کے معاون محقق مبشر حسن کے مطابق، “سڑکوں پر حقیقی سوگوار افراد، سیاسی موقع پرست اور انتہا پسند قوم پرست سب ایک ساتھ موجود ہیں۔ اگر حالات یونہی رہے تو مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد انتہائی مشکل ہو جائے گا۔”

شریف عثمان ہادی کا جسدِ خاکی جمعہ کی شام بنگلہ دیش واپس لایا گیا۔ جیسے جیسے قوم اس نوجوان رہنما کی شہادت پر سوگ منا رہی ہے، بنگلہ دیش کو اب اس نازک امتحان کا سامنا ہے کہ آیا وہ انصاف اور جمہوری استحکام کے ذریعے ان کی یاد کو زندہ رکھ پاتا ہے یا مزید انتشار کی طرف بڑھتا ہے۔