آئی ایل او نے ایک تازہ رپورٹ میں حکومتوں، آجروں اور کارکنوں کی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے فیصلہ کن اقدامات کریں جن کے ذریعے ‘اے آئی’ کو روزگار کی قاتل کے بجائے معاون بنایا جا سکے

عندلیب اختر
دنیا مین ہر روز ایک نیا انقلاب آ رہا ہے اور اس انقلاب کا سب سے طاقتور زریعہ مصنوعی ذہانت بنتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ ٹیکنالوجی بے شمار سہولیات اور پیداوار میں بہتری کی ضامن ہے، وہیں دوسری طرف اس کے سماجی اور معاشی اثرات پر بھی دنیا بھر میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ 20 مئی 2025 کو اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ محنت (ILO) اور پولینڈ کے ایک تحقیقی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ اس تبدیلی کی ایک جھلک پیش کرتی ہے—اور یہ جھلک خوش آئند ہونے کے ساتھ ساتھ چیلنجنگ بھی ہے۔
رپورٹ کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے پھیلاؤ کے باوجود بڑے پیمانے پر نوکریاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوں گی۔ البتہ کام کا طریقہ کار ضرور تبدیل ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک چوتھائی ملازمین کی نوکریاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہ اثرات زیادہ تر ان کاموں پر ہوں گے جن میں دفتری، انتظامی، اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ مواد نویسی، ڈیٹا انٹری، یا شیڈولنگ۔
اس مشترکہ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقی مصنوعی ذہانت خاص طور پر خواتین ملازمین اور دفتری کارکنوں کے کام کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ ایسے حالات میں لوگوں کے روزگار کو تحفظ دینے کے لیے مشمولہ پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔تخلیقی مصنوعی ذہانت سے مراد ایسے نظام ہیں جو صارفین کی طلب پر متن، تصاویر، کوڈ یا اعدادوشمار کا خلاصہ تیار کر سکتے ہیں۔ جب انہیں مزید بڑے پیمانے پر استعمال میں لایا جائے گا تو ممکنہ طور پر ملازمین کے اس کام کا انداز تبدیل ہو جائے گا جسے وہ روزانہ انجام دیتے ہیں۔
کارکنوں سے بات چیت، ماہرین کے جائزوں اور مصنوعی ذہانت کے نمونوں (ماڈلز) کے ذریعے تقریباً 30 ہزار نوکریوں کا تجزیہ کرنے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ چند ہی طرح کے کام ایسے ہیں جنہیں مصنوعی ذہانت کی موجودہ ٹیکنالوجی انسانی مدد کے بغیر انجام دے سکتی ہے۔
خواتین کے روزگار کو خطرہ
جائزے کے مطابق، بلند درجہ آمدنی والے ممالک میں جن نوکریوں کو ‘اے آئی’ کے خودکار طریقہ کار سے خطرہ لاحق ہے وہ خواتین کی 9.6 فیصد ملازمتوں کا احاطہ کرتی ہیں اور یہ تعداد مردوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کی 4.7 فیصد اور مردوں کی 2.4 فیصد ملازمتوں کو یہ خطرہ لاحق ہے۔ دفتری اور انتظامی کاموں میں خواتین کی حد سے زیادہ نمائندگی اس فرق کی بڑی وجہ ہے جبکہ ‘اے آئی’ انہی دونوں کاموں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گی۔ایسی ملازمتوں میں عام طور پر ڈیٹا انٹری اور دستاویزات کی فارمیٹنگ اور شیڈولنگ جیسے کام کرنا ہوتے ہیں جبکہ ‘اے آئی’ پہلے ہی یہ سب کچھ اچھے انداز میں کر رہی ہے۔
اگرچہ یہ کام پوری طرح ختم نہیں ہوں گے تاہم، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انہیں جزوی طور پر خودکار بنانے سے کام کا معیار گر جائے گا، ملازمین کی ذمہ داریاں محدود ہو جائیں گی، اجرتوں میں اضافہ تھم جائے گا اور عدم استحکام بڑھ جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مخصوص تربیت کی غیرموجودگی یا کام کے انداز کو تبدیل نہ کرنے سے بعض ملازمین بالخصوص خواتین کے لیے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے مواقع محدود ہوں گے۔
غیرمساوی عالمی منظرنامہ
رپورٹ کے مطابق، اس معاملے میں مختلف علاقوں میں صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔ بلند درجہ آمدنی والے ممالک میں 34 فیصد نوکریوں کا تعلق ایسے پیشوں سے ہے جنہیں ‘اے آئی’ تبدیل کر دے گی جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 11 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ لاطینی امریکہ اور ایشیا کے بعض حصوں جیسے متوسط آمدنی والے ممالک میں یہ شرح دونوں کے درمیان میں رہے گی۔اس معاملے میں یورپ اور وسطی ایشیا میں صنفی تفاوت بہت زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ دفتری کاموں میں خواتین ملازمین کی بڑی تعداد اور کام کی وسیع پیمانے پر ڈیجیٹلائزیشن کو قرار دیا گیا ہے۔ ذیلی صحارا افریقہ، جنوبی ایشیا اور عرب ممالک جیسے خطوں میں فی الوقت ملازمتوں کو ‘اے آئی’ سے زیادہ خطرہ نہیں لیکن یہ ٹیکنالوجی حفاظتی اقدامات کے بغیر پھیلی تو ان جگہوں پر بھی لوگوں کی نوکریاں متاثر ہوں گی۔
جائزے میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کسی کام میں فی الوقت ‘آے آئی’ کا زیادہ عمل دخل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے دیگر کے مقابلے میں کم خطرہ لاحق ہے۔ ایسے خطوں میں جہاں ڈیجیٹل رسائی محدود ہے یا محنت کو مضبوط تحفظ حاصل نہیں وہاں چھوٹے پیمانے پر خودکاری بھی کمزور شعبوں کو بری طرح غیرمستحکم کر سکتی ہے۔
‘اے آئی’ کو مفید بنانے کی تجاویز
آئی ایل او نے حکومتوں، آجروں اور کارکنوں کی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے فیصلہ کن اقدامات کریں جن کے ذریعے ‘اے آئی’ کو روزگار کی قاتل کے بجائے معاون بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے کارکنوں کو ڈیجیٹل صلاحیتوں سے روشناس کرانا بہت ضروری ہے۔ بالخصوص ایسی خواتین ملازمین کے لیے یہ اور بھی اہم ہے جو دفتری یا انتظامی کام کرتی ہیں۔ ادارے نے ‘اے آئی’ سے متعلق منصوبہ بندی کو افرادی قوت کی وسیع تر منڈی اور تعلیمی پالیسیوں میں ضم کرنے کی اہمیت بھی واضح کی ہے۔افرادی قوت کو تبدیلی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے ناصرف تکنیکی تربیت درکار ہو گی بلکہ معاون ڈھانچے، جدید نصاب اور آجروں کی ضروریات اور قومی پالیسیوں کے مابین ہم آہنگی کی ضرورت بھی پڑے گی۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جن خطوں میں ‘اے آئی’ سمیت جدید ٹیکنالوجی تک رسائی محدود ہے انہیں ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے اور اس تک مساوی رسائی یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اسی صورت تمام ممالک کام کے مستقبل کو اپنی شرائط کے مطابق تشکیل دے سکتے ہیں۔AMN
