
سدھیر کمار
دنیا تیزی سے ایک ایسے ٹیکنالوجی انقلاب کے قریب پہنچ رہی ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کو بدل سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت یا اے آئی محض ایک سہولت نہیں رہی، یہ معاشی، سماجی اور حکومتی ڈھانچوں کو ازسرنو ترتیب دینے والی طاقت بن چکی ہے۔ خاص طور پر ایشیا، جہاں دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی آباد ہے، اس انقلاب کے خطرات اور مواقع دونوں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی تازہ ترین رپورٹ اسی بدلتی ہوئی دنیا کی ایک اہم جھلک پیش کرتی ہے اور خبردار کرتی ہے کہ ایشیائی خطے میں کروڑوں نوکریاں خودکار نظاموں اور ذہین مشینوں کے سبب متاثر ہو سکتی ہیں۔
یو این ڈی پی کے چیف اکانومسٹ فلپ شیلکنز کا کہنا ہے کہ جس طرح 19ویں صدی کی صنعتی ترقی نے دنیا کو چند امیر اور بے شمار غریب ممالک میں تقسیم کر دیا تھا، اسی طرح مصنوعی ذہانت بھی ایک نئی عالمی تقسیم پیدا کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق وہ ممالک جنہوں نے تعلیم، مہارتوں، کمپیوٹنگ پاور اور موثر طرز حکمرانی میں سرمایہ کاری کی ہے، آنے والے دور کے فاتح ہوں گے، جبکہ دوسرے ممالک پیچھے رہ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ تشویش اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ٹیکنالوجی کا فائدہ ہمیشہ اس معاشرے کو پہلے پہنچتا ہے جو اس کے لیے تیار ہوتا ہے، اور اس کا نقصان زیادہ تر ان لوگوں پر پڑتا ہے جن کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دفاتر، کال سینٹرز، بینکنگ، ٹیچنگ، صحت اور سرکاری اداروں میں جہاں کام زیادہ تر ڈیٹا پروسیسنگ اور دہرائے جانے والے افعال پر مشتمل ہوتا ہے، وہاں اے آئی کے استعمال کے باعث خواتین اور نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایشیا کے کئی ملکوں میں خواتین کی بڑی تعداد انہی شعبوں میں کام کرتی ہے، اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع سکڑنے کا خدشہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ نوجوان جن کے پاس تجربہ کم ہوتا ہے اور جو آغاز ہی میں کم مہارت والی ملازمتوں میں شامل ہوتے ہیں، وہ بھی اس تبدیلی کی زد میں آنے والے اولین طبقات میں شامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت سے خطرات جتنے حقیقی ہیں، اس کے مواقع بھی اتنے ہی بڑے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگلی دہائی میں مصنوعی ذہانت ایشیا کی معیشت کو تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ صحت، مالیات اور کاروباری شعبوں کی پیداواری صلاحیت میں پانچ فیصد تک اضافہ ممکن ہے، جبکہ خطے کی مجموعی جی ڈی پی میں دو فیصد سالانہ نمو بھی متوقع ہے۔ چین، سنگاپور اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے پہلے ہی اس سمت میں بڑی سرمایہ کاری کر کے نئی ٹیکنالوجی کی بنیادیں مضبوط کر لی ہیں، اور ان کے فائدے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
اس کے برعکس، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک میں بنیادی ڈھانچہ، ڈیجیٹل تعلیم، ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ اور کمپیوٹنگ پاور جیسے عناصر ابھی تک مطلوبہ سطح پر موجود نہیں۔ یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ ناقص انفراسٹرکچر اور مہارتوں کی کمی نہ صرف اے آئی کے ممکنہ فائدے کو محدود کرتی ہے بلکہ خطرات کو کہیں زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر کمبوڈیا، پاپوا نیوگنی اور ویت نام جیسے ممالک کے لیے زیادہ اہم یہ نہیں کہ وہ اپنی اے آئی ٹیکنالوجی تخلیق کریں، بلکہ یہ کہ وہ ایسی سادہ مگر موثر تکنیکیں اختیار کریں جو بنیادی سطح پر لوگوں کے کام آ سکیں۔ آواز پر مبنی ٹیکنالوجی ان ممالک کے لیے ایک مؤثر راستہ بن سکتی ہے، جس کے ذریعے دیہی کسان، اساتذہ یا طبی کارکن بغیر انٹرنیٹ کے بھی ضروری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک جانب یہ صورتِ حال ہے، تو دوسری جانب یہ حقیقت بھی ہے کہ ایشیا مصنوعی ذہانت کا سب سے بڑا صارف بن چکا ہے۔ دنیا میں اے آئی استعمال کرنے والے آدھے سے زیادہ افراد اسی خطے میں رہتے ہیں۔ چین کے پاس مصنوعی ذہانت سے متعلق 70 فیصد سے زائد عالمی پیٹنٹس ہیں، اور صرف چند ایشیائی ممالک میں 3100 سے زیادہ اے آئی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ اس تیزرفتار اپنانے کی صلاحیت کے باوجود، ٹیکنالوجی کی تخلیق اور اس کے استعمال کے فوائد میں بہت بڑا فرق موجود ہے، جو مستقبل میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا انقلاب دنیا کی سمت متعین کر رہا ہے۔ یہ موقع بھی ہے اور خطرہ بھی۔ ایشیا جیسے بڑے اور متنوع خطے کے لیے یہ فیصلہ کن لمحہ ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو کس طرح اپنا کر ترقی کا ذریعہ بناتا ہے۔ اگر بروقت اور دوراندیش پالیسیاں نہ اپنائی گئیں تو بے روزگاری اور عدم مساوات کا طوفان کئی دہائیوں کی محنت کو بہا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس تبدیلی کا سامنا دانشمندی سے کیا گیا، تو یہی ٹیکنالوجی کروڑوں لوگوں کے لیے نئی امید، نئے روزگار اور نئی ترقی کا دروازہ بن سکتی ہے۔
AMN
