Last Updated on December 28, 2025 11:12 pm by INDIAN AWAAZ

ڈھاکہ سے ذاکر حسین
بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات سے قبل سیاسی منظرنامہ اس وقت گرم ہو گیا جب طلبہ کی قیادت میں ابھرنے والی نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) نے جماعتِ اسلامی کی قیادت والے انتخابی اتحاد میں باضابطہ شمولیت اختیار کر لی۔ اس فیصلے کے بعد یہ اتحاد اب دس جماعتوں پر مشتمل ہو گیا ہے، جس سے ملک کی سیاست میں نئی بحث اور ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔
جماعتِ اسلامی کے امیر شفیق الرحمن نے اتوار کو ڈھاکہ کے جاتیہ پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران اس پیش رفت کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان نشستوں کی تقسیم پر بات چیت کے بعد “زیادہ تر اتفاق ہو چکا ہے” اور باقی نامزدگیاں جلد ہی جمع کرا دی جائیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریٹائرڈ کرنل اولی احمد کی قیادت والی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) بھی اس اتحاد میں شامل ہو گئی ہے۔
اس موقع پر شفیق الرحمن نے کہا کہ یہ اتحاد ملک کی “قومی زندگی کے ایک نازک مرحلے” میں قائم کیا گیا ہے اور اسے وقت کی ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ چند دیگر جماعتوں نے بھی شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن فی الحال اتحاد کو مزید وسعت دینا ممکن نہیں۔
این سی پی کے اس فیصلے نے خود پارٹی کے اندر گہرے اختلافات کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جولائی میں ہونے والی طلبہ تحریک سے ابھرنے والی این سی پی نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی تمام 300 نشستوں پر آزادانہ طور پر الیکشن لڑے گی۔ تاہم اتوار کو کم از کم 30 پارٹی رہنماؤں نے کنوینر ناہد اسلام کو احتجاجی خط بھیج کر جماعت کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی۔ اس کے چند گھنٹوں بعد ہی 80 سے زائد رہنماؤں نے ایک جوابی خط ارسال کر کے قیادت کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کا اعلان کیا۔

اتحاد کے اعلان سے قبل این سی پی کے کئی سینئر رہنماؤں کے استعفے بھی سامنے آئے۔ سینئر جوائنٹ ممبر سیکریٹری تسنیم جارا پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکی ہیں اور آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اتوار کو جوائنٹ کنوینر تجنوا جبین نے بھی جماعت کے ساتھ تعاون پر نظریاتی اختلافات کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور انتخابی دوڑ سے دستبردار ہو گئیں۔
پریس کانفرنس میں جماعتِ اسلامی، ایل ڈی پی، بنگلہ دیش خلافت مجلس اور اسلامی اندولن بنگلہ دیش کے قائدین موجود تھے۔ این سی پی اور ایل ڈی پی کی شمولیت کے بعد جماعت کی قیادت والا یہ اتحاد اب دس سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہو چکا ہے جو آنے والے قومی انتخابات میں حصہ لیں گی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ این سی پی کے اس فیصلے سے انتخابی سیاست میں نئی صف بندیاں سامنے آئیں گی، جبکہ پارٹی کے اندرونی اختلافات اس کے مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
