جرائم کے ریکارڈ کی قومی بیورو (این سی آر بی)، اپنی اشاعت ‘ہندوستان میں جرائم’ میں ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون 2006 (پی سی ایم اے)’ کے تحت درج بچوں کی شادی کے کیسوں کی تعداد کے اعداد و شمار کو مرتب کرتی اور شائع کرتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ، سال 2021 تک کے لیے دستیاب ہے ۔ این سی آر بی کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں یعنی 2017، 2018، 2019، 2020، 2021 کے دوران ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون 2006 (پی سی ایم اے)’ کے تحت درج مقدمات کی تعداد، بالترتیب 395، 501، 523، 785 اور 1050 رہی ہے۔ تاہم، کیسز کی زیادہ رپورٹنگ، ضروری نہیں کہ بچوں کی شادیوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق ہو، بلکہ یہ حکومت کے اقدامات اور ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ قانون کے بہتر نفاذ کی وجہ سے، ایسے واقعات کی اطلاع دینے کے لیے شہریوں کے مابین بیداری میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ پی سی ایم اے 2006 کے تحت درج ، بچوں کی شادی کی ریاست وار تفصیلات ضمیمہ میں دی گئی ہیں۔

file photo

حکومت نے بچوں کی شادیوں کی روک تھام اور بچوں کی شادیوں سے منسلک افراد کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے کے لیے، ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون 2006 (پی سی ایم اے)’ نافذ کیا ہے۔ ‘بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون (پی سی ایم اے)’ کی دفعہ 16، ریاستی حکومت کو پوری ریاست کے لیے، یا وہاں کے ایسے حصے کے لیے، جس کی وضاحت کی جا سکتی ہے، ایک افسر یا افسر ان کو ‘بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق افسران (سی ایم پی او)’ کے نام سے معمور کرنے کا اختیار دیتا ہےجن کا نوٹیفکیشن میں بیان کردہ علاقے یا علاقوں پر دائرہ اختیار ہوگا۔ یہ دفعہ، سی ایم پی اوز کے ذریعے انجام پانے والے کاموں کی بھی وضاحت کرتا ہے، جس میں ایسی کارروائی کرکے بچوں کی شادیوں کو روکنا بھی شامل ہے جو وہ مناسب سمجھیں۔ قانون کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف موثر قانونی چارہ جوئی کے لیے ثبوت جمع کرنے کی غرض سے، افراد کو مشورہ دینا یا محلے کے رہائشیوں کو مشورہ دینا کہ وہ بچپن کی شادیوں کو فروغ دینے، مدد کرنے، سہارا دینے یا اس کی اجازت دینے میں ملوث نہ ہوں؛ بچوں کی شادیوں کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا؛ اور بچپن کی شادیوں کے معاملے پر کمیونٹی کو حساس بنانا؛ یہ اتھارٹیز، متعلقہ ریاستی حکومتوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کےانتظامیہ کے تحت کام کرتی ہیں۔ اس طرح، قانون کی دفعات کا نفاذ ان کے ذمہ ہے۔

‘پولیس’ اور ‘پبلک آرڈر’ ہندوستان کے آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت ریاستی مضامین ہیں۔ بچپن کی شادیوں پر پابندی سمیت امن و امان برقرار رکھنے، شہریوں کے جان و مال کا تحفظ، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کی ذمہ داریاں، متعلقہ ریاستی حکومتوں کے پاس ہے۔ ریاستی حکومتیں قوانین کی موجودہ دفعات کے تحت اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے لیے مجاز ہیں۔

اس کے باوجود، مرکزی حکومت اس عمل کے برے اثرات کو اجاگر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً بیداری مہم، میڈیا مہمات اور پیش رسائی کے پروگرام چلاتی ہے اور ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مشورے جاری کرتی ہے۔ وزارت نے تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو سی ایم پی اوز کی تعداد بڑھانے کے لیے بھی لکھا ہے، کیونکہ مقامی سطحوں پر قانونی افسر کی موجودگی کے نتیجے میں، اس موضوع پر اور زیادہ موثر عوامی مشغولیت اور بچپن کی شادی کی روک تھام ہوگی۔ مزید برآں، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت امبریلا اسکیم ‘مشن شکتی’ کے تحت بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ (بی بی بی پی) جزو کو نافذ کرتی ہے، جس میں صنفی مساوات سے متعلق معاملات پر بیداری پیدا کرنا اور کم عمری کی شادی کی حوصلہ شکنی، ایک اہم توجہ کا مرکز ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کا قومی کمیشن (این سی پی سی آر)، اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً آگاہی پروگرام اور متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت ہند نے شارٹ کوڈ 1098 کے ساتھ چائلڈ لائن متعارف کرائی ہے، جو بحران میں گھرے بچوں کے لیے ایک ساتوں دن 24 گھنٹے ٹیلی فون ایمرجنسی پیش رسائی کی سروس ہے جو کسی بھی قسم کی مدد کے لیے مناسب مداخلت کے ساتھ جواب دیتی ہے، جس میں پولیس، بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق افسران (سی ایم پی اوز)، اور بچوں کے تحفظ سے متعلق ضلع یونٹس وغیرہ کے ساتھ تال میل سے بچوں کی شادیوں کی روک تھام بھی شامل ہے۔

ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ معاشرے کے کچھ طبقے، رسم و رواج اور/یا مذہبی عقائد وغیرہ کے نام پر بچپن کی شادیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض کیسز میں معزز عدالتوں میں عذرداریاں بھی دائر کی گئی ہیں۔ پرسنل لاز کے تحت، ان بنیادوں پر نابالغ لڑکی کی شادی کے جواز کو برقرار رکھنے کا قانون، حکومت نے 21دسمبر2021 کو پارلیمنٹ میں بچوں کی شادی کی ممانعت (ترمیمی) بل، 2021 کے نام سے ایک بل پیش کیا ہے تاکہ خواتین کی شادی کی عمر 21 سال تک بڑھا کر اسے مردوں کے برابر بنایا جا سکے۔ مجوزہ بل میں فریقین کی شادی کی عمر سے متعلق قانون سازی میں نتیجہ خیز ترامیم کرنے کی بھی دفعات ہیں، جیسے کہ ‘دی انڈین کرسچن میرج ایکٹ 1872’، ‘دی پارسی میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ 1936’، ‘دی۔ مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ 1937، ‘دی اسپیشل میرج ایکٹ، 1954’، ‘دی ہندو میرج ایکٹ 1955’، اور ‘دی فارن میرج ایکٹ 1969’۔ اس کے بعد سے یہ بل محکمہ تعلیم، خواتین، بچوں، نوجوانوں اور کھیلوں سے متعلق پارلیمانی قائمہ کمیٹی کو جانچ کے لیے بھیجا گیا ہے۔

مزید برآں، پی سی ایم اے کے نفاذ کے بعد سے، 2006 میں بچپن کی شادی کے معاملات 47 فیصد سے نصف کم ہو کر 21-2019 (این ایف ایچ ایس -5) کے دوران 23.3 فیصد رہ گیے ہیں۔ تاہم، آندھرا پردیش، آسام، بہار، جھارکھنڈ، راجستھان، تلنگانہ، تریپورہ اور مغربی بنگال جیسی چند ریاستوں میں این ایف ایچ ایس – 5 کے مطابق قومی اوسط سے کم عمری کی شادی کی شرح زیادہ ہے۔

ملحقہ

پچھلے پانچ سالوں یعنی 2017، 2018، 2019، 2020 اور 2021 کے دوران پی سی ایم اے 2006 کے تحت درج بچوں کی شادی کی ریاستی تفصیلات۔ 

نمبر شمارریاست / مرکز کے زیر انتظام علاقے20172018201920202021
سی آرسی آرسی آرسی آرسی آر
1آندھرا پردیش151443219
2اروناچل پردیش00000
3آسام5888115138155
4بہار17358511
5چھتیس گڑھ12010
6گوا00000
7گجرات68201512
8ہریانہ1821203333
9ہماچل پردیش59455
10جھارکھنڈ17334
11کرناٹک6573111184273
12کیرالہ15187812
13مدھیہ پردیش53454
14مہاراشٹر2013205082
15منی پور00002
16میگھالیہ00000
17میزورم00000
18ناگالینڈ00000
19اڈیشہ1722222464
20پنجاب866138
21راجستھان61119311
22سکم00000
23تمل ناڈو55674677169
24تلنگانہ2524356057
25تریپورہ11041
26اتر پردیش444126
27اترا کھنڈ122912
28مغربی بنگال49706898105
 ریاستی میزان3924985187791045
29انڈمان و نکوبار جزائر00000
30چنڈی گڑھ22110
31دادرا و نگر حویلی اور دمن و دیو +00100
32دہلی11242
33جموں و کشمیر*00112
34لداخ   00
35لکشدویپ00000
36پڈوچیری00001
 مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا میزان33565
 میزان (کل ہند)3955015237851050

ماخذ: ہندوستان میں جرائم

یہ معلومات خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب فراہم کیں۔