پنکھڑی دت


افرادی قوت کی شراکت کی شرح روزگاریافتہ یا روزگار کی خواہش مند خواتین یا مرد و ں کی کام کرنے کی عمر والی آبادی میں حصہ داری کو ناپنے کا طریقہ ہے۔ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق سن 2019میں ہندوستان میں 15-64برس کے کام کرنے کی عمر والی خواتین کی تعداد 43.83 کروڑ تھی۔آئی ایل او کے اندازوں کے مطابق سن 2020میں خواتین افرادی قوت شراکت شرح(ایف ایل پی آر) صرف 9.6کروڑ ہے جو یا تو روزگار یافتہ ہیں یا روزگار کی تلاش میں ہیں۔یہ مردوں کی افرادی قوت کی شرح کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ اگر موازانہ کیا جائے تو ہندوستان جی 20 کے ملکوں میں ایسا ملک ہے جہاں صنفی خلیج سب سے زیاد ہے اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین کی اقتصادی شراکت کی شرح،بالخصوص سن 2005سے گھٹتی جارہی ہے۔
ہندوستانی لیبر مارکیٹ کی بعض بڑی رکاوٹوں نے پچھلے برسوں میں افرادی قوت میں ہندوستانی خواتین کی شراکت کو محدود کردیا ہے۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آبادی کی خصوصیات، مردوں ا ور خواتین دونوں کی تعلیمی صلاحیتیں، درمیانہ سائز کے انٹرپرائزیزکی کمی، ملازمت دینے کے لیے کمپنیوں کے سخت ضابطے اور لیبر مارکیٹ کے سلسلے میں مختلف ریاستوں کے درمیان فرق وہ چند عناصر ہیں جنہوں نے افرادی قوت کے طورپر خواتین کی شراکت کے فیصلے پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔
ہندوستان میں گوکہ خواتین کی تعلیم کی سطح میں خاصی بہتری آئی تاہم اس کے باوجود ان کی آمدنی میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا ہے۔ سپلائی اور مانگ دونوں کی طرف سے کمیاں ہیں۔ سپلائی کے سلسلے میں کیے گئے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو آمدنی میں اضافہ، شوہر کی تعلیمی صلاحیت، کمتر سمجھے جانی والی ملازمتوں میں عورتوں کی شراکت ہندوستانی خواتین کے روزگار کے مواقع پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مانگ کے لحاظ سے دیکھیں تو تعلیم یافتہ خواتین کے لیے ملازمت کی شرح میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا ہے کہ انہیں جذب کیا جاسکے۔ا س کے نتیجے میں خواتین لیبر فورس سے باہر ہوتی گئیں۔
ایک اور اثر یہ ہوا کہ غیر زرعی مزدوروں کا ایک بڑا حصہ غیر منظم سیکٹر میں ملازمت کے لیے غیر رسمی سیکٹر کی ملازمتوں کی طرف منتقل ہوگیا اور عام طورپر لیبر سروے میں ان کا مکمل اندراج نہیں ہوپاتا ہے۔بیشتر غیر رسمی ملازمتوں میں خواتین کے ساتھ نہ تو کوئی معاہدہ کیا جاتاہے نہ ہی انہیں اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی فائدہ مل پاتا ہے۔ مثلاً کام کرنے کے محفوظ مقامات، تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں، زچگی مراعات وغیرہ۔ خواتین کے ساتھ دوسرے چیلنجز بھی ہیں مثلا ًانہیں جائیداد میں اکثر حصہ نہیں مل پاتا ہے، رسمی مالیاتی سیکٹر سے انہیں قرضے ملنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شادی اور بچے بھی ہندوستان میں خواتین کی اقتصادی شراکت داری پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ہندوستان کی ترقی کی کہانی خواتین کی اقتصادی شراکت داری کے بغیر نامکمل ہے۔تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین افرادی قوت میں اضافے کی شرح کا اقتصادی ترقی کی شرح سے براہ راست تعلق ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ رسمی سیکٹر میں خواتین کی اقتصادی شراکت کا ملک کی آمدنی پر براہ راست اثر پڑتا ہے اور اس کے دیگر مثبت اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔یہاں اس طرح کی ایک مثال کا ذکر کیا جاتا ہے۔ موجودہ ثقافتی اور سماجی رواج کی وجہ سے ہندوستانی خواتین سے، باوجودیکہ وہ کل وقتی ملازمت کررہی ہوں، یہ توقع کی جاتی ہے کہ بچوں اور خاندان کے بزرگوں کی دیکھ بھال کرنا بنیادی طور پر اس کی ذمہ داری ہے۔اس حقیقت کا اندازہ گھریلوکام کاج میں خواتین کے ذریعہ صرف کیے گئے گھنٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک ہندوستانی عورت گھر کے کام کاج پر روزانہ اوسطاًچار گھنٹے صرف کرتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مرد گھرکے کام کاج پر اس سے نو گنا کم یعنی تقریباً صرف 25منٹ خرچ کرتے ہیں۔
کووڈ انیس کی وبا نے ملک میں موجود پہلے سے ہی صنفی عدم مساوات کو مزید بڑھا دیا ہے۔لاک ڈاون کے دوران ہندوستان سمیت پوری دنیا میں خواتین کو اپنا گھریلو خرچ چلانے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ا سکول جانے والے بچوں کو گھر پر ہی تعلیم کا انتظام کرنا پڑا اور بزرگوں کی دیکھ بھال ایک کل وقتی کام بن گیا۔ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاون کے بعد کے مہینوں میں کمپنیوں میں خواتین ملازمین کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی گئی۔
خواتین انٹرپرنیور کے معاملے میں ان کی بزنس کی نوعیت کے لحاظ سے لاک ڈاون کے دوران آمدنی میں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ خواتین کی ملکیت والی بیشتر تجارتوں میں ٹریڈ، ہاسپیٹلیٹی اور ریٹیل شامل ہیں، جو اس وباکے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ البتہ حکومت کے ٹھوس اقدامات اور پالیسی اقدامات کی وجہ سے لاک ڈاون کے فوراً بعد ان خواتین کو خود کو سنبھالنے میں کافی مدد ملی۔ منریگا قانون کے تحت تقریباً بیس کروڑ جن دن یوجنا اکاونٹ رکھنے والی خواتین کو رقوم کی براہ راست منتقلی کی گئی اور یہ رقم 182 روپے یومیہ سے بڑھا کر 202روپے یومیہ کردی گئی۔ہمیں امید کرنی چاہئے کہ نئی دہائی ہندوستان میں خواتین افرادی قوت کے لیے ایک سنہری دہائی ثابت ہوگی۔
(مصنفہ نیتی آیوگ میں اکنامکس اور فائنانس کے شعبے میں پبلک پالیسی کنسلٹنٹ ہیں)

٭٭٭