میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں آپ سبھی کا ایک بار پھر بہت بہت خیر مقدم ہے۔ آج اس گفتگو کو شروع کرتے ہوئے ذہن و دل میں کتنے ہی جذبات امنڈ رہے ہیں۔ ہمارا اور آپ کا ’من کی بات‘ کا یہ ساتھ، اپنے ننیانوے (99ویں) پائیدان پر آ پہنچا ہے۔ عام طور پر ہم سنتے ہیں کہ ننیانوے (99ویں) کا پھیر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ کرکٹ میں تو ’نروَس نائنٹیز‘ کو بہت مشکل پڑاؤ مانا جاتا ہے۔ لیکن، جہاں بھارت کے ہر شہری کے ’من کی بات‘ ہو، وہاں کی ترغیب ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ کو لے کر ملک کے لوگوں میں بہت جوش ہے۔ مجھے بہت سارے پیغام مل رہے ہیں، فون آ رہے ہیں۔ آج جب ہم آزادی کا امرت کال منا رہے ہیں، نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، تو سوویں (100ویں) ’من کی بات‘ کو لے کر، آپ کے مشوروں، اور خیالات کو جاننے کے لیے میں بھی بہت پرجوش ہوں۔ مجھے، آپ کے ایسے مشوروں کا بے صبری سے انتظار ہے۔ ویسے تو انتظار ہمیشہ ہوتا ہے لیکن اس بار ذرا انتظار زیادہ ہے۔ آپ کے یہ مشورے اور خیالات ہی 30 اپریل کو ہونے والے سوویں (100ویں) ’من کی بات‘ کو اور یادگار بنائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم نے ایسے ہزاروں لوگوں کی چرچہ کی ہے، جو دوسروں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اپنی پوری پنشن لگا دیتے ہیں، کوئی اپنی پوری زندگی کی کمائی ماحولیات اور جانداروں کی خدمت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں خدمت کو اتنا اوپر رکھا گیا ہے کہ دوسروں کی خوشی کے لیے، لوگ اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس لیے تو ہمیں بچپن سے شیوی اور ددھیچی جیسے عظیم لوگوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
ساتھیو، جدید میڈیکل سائنس کے اس دور میں آرگن ڈونیشن، کسی کو زندگی دینے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ کہتے ہیں، جب ایک آدمی موت کے بعد اپنا جسم عطیہ کرتا ہے، تو اس سے 8 سے 9 لوگوں کو ایک نئی زندگی ملنے کی امید بنتی ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ آج ملک میں آرگن ڈونیشن کے تئیں بیداری بھی بڑھ رہی ہے۔ سال 2013 میں، ہمارے ملک میں، آرگن ڈونیشن کے 5 ہزار سے بھی کم معاملے تھے، لیکن 2022 میں، یہ تعداد بڑھ کر، 15 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ آرگن ڈونیشن کرنے والے افراد نے، ان کی فیملی نے، واقعی بہت ثواب کا کام کیا ہے۔
ساتھیو، میرا کافی عرصے سے من تھا کہ میں ایسا نیک کام کرنے والے لوگوں کے ’من کی بات‘ جانوں اور اسےہم وطنوں کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ اس لیے آج ’من کی بات‘ میں ہمارے ساتھ ایک پیاری سی بٹیا، ایک خوبصورت گڑیا کے والد اور ان کی والدہ ہمارے ساتھ جڑنے جا رہے ہیں۔ والد کا نام ہے سکھبیر سنگھ سندھو جی اور والدہ کا نام ہے سپریت کور جی، یہ فیملی پنجاب کے امرتسر میں رہتی ہے۔ بہت منتوں کے بعد انہیں، ایک بہت خوبصورت گڑیا، بٹیا ہوئی تھی۔ گھر کے لوگوں نے بہت پیار سے اس کا نام رکھا تھا – ابابت کور۔ ابابت کا معنی، دوسرے کی خدمت سے جڑا ہے، دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے جڑا ہے۔ ابابت جب صرف انتالیس (39) دن کی تھی، تبھی وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ لیکن سکھبیر سنگھ سندھو جی اور ان کی بیوی سپریت کور جی نے، ان کی فیملی نے، بہت ہی مثالی فیصلہ لیا۔ یہ فیصلہ تھا – انتالیس (39) دن کی عمر والی بیٹی کے آرگن ڈونیشن کا، جسم کے عضو کے عطیہ کا۔ ہمارے ساتھ اس وقت فون لائن پر سکھبیر سنگھ اور ان کی بیوی موجود ہیں۔ آئیے، ان سے بات کرتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی نمستے۔
سکھبیر جی – نمستے جناب وزیر اعظم صاحب۔ ست شری اکال
جناب وزیر اعظم – ست شری اکال جی، ست شری اکال جی، سکھبیر جی میں آج ’من کی بات‘ کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے لگا کہ ابابت کی بات اتنی حوصلہ افزا ہے وہ آپ ہی کے منہ سے سنوں کیوں کہ گھر میں بیٹی کی پیدائش جب ہوتی ہے تو کئی خواب کئی خوشیاں لے کر آتی ہے، لیکن بیٹی اتنی جلدی چلی جائے وہ درد کتنا خطرناک ہوگا اس کا بھی میں اندازہ لگا سکتا ہوں۔ جس طرح سے آپ نے فیصلہ لیا، تو میں ساری بات جاننا چاہتا ہوں جی۔
سکھبیر جی – سر، بھگوان نے بہت اچھا بچہ دیا تھا ہمیں، بہت پیاری گڑیا ہمارے گھر میں آئی تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی ہمیں پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں ایک ایسا نسوں کا گچھا بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے۔ تو ہم حیران ہو گئے کہ بچے کی صحت اتنی اچھی ہے، اتنا خوبصورت بچہ ہے اور اتنا بڑا مسئلہ لے کر پیدا ہوا ہے تو پہلے 24 دن تک تو بہت ٹھیک رہا، بچہ بالکل نارمل رہا۔ اچانک اس کا دل ایک دم کام کرنا بند ہو گیا، تو ہم جلدی سے اس کو اسپتال لے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے اس کو ریوائیو تو کر دیا لیکن سمجھنے میں ٹائم لگا کہ اس کو کیا دقت آئی، اتنی بڑی دقت کہ چھوٹا سا بچہ اور اچانک دل کا دورہ پڑ گیا تو ہم اس کو علاج کے لیے پی جی آئی چنڈی گڑھ لے گئے۔ وہاں بڑی بہادری سے اس بچہ نے علاج کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن بیماری ایسی تھی کہ اس کا علاج اتنی چھوٹی عمر میں ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی کہ اس کو ریوائیو کروایا جائے، اگر چھ مہینے کے آس پاس بچہ چلا جائے تو اس کا آپریشن کرنے کی سوچی جا سکتی تھی۔ لیکن بھگوان کو کچھ اور منظور تھا، انہوں نے، صرف 39 دنوں کی جب ہوئی تب ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو دوبارہ دل کا دوڑہ پڑا ہے، اب امید بہت کم رہ گئی ہے۔ تو ہم دونوں میاں بیوی روتے ہوئے اس فیصلہ پر پہنچے کہ ہم نے دیکھا تھا اس کو بہادری سے لڑتے ہوئے، بار بار ایسا لگ رہا تھا جیسے اب چلی جائے گی، لیکن پھر ریوائیو کر رہی تھی تو ہمیں لگاکہ اس بچے کا یہاں آنے کا کوئی مقصد ہے، تو انہوں نے جب بالکل ہی جواب دے دیا تو ہم دونوں نے ڈیسائڈ کیا کہ کیوں نہ ہم اس بچے کے آرگن ڈونیٹ کر دیں۔ شاید کسی اور کی زندگی میں اجالا آ جائے، پھر ہم نے پی جی آئی کے جو ایڈمنسٹریٹو بلاک ہے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں گائیڈ کیا کہ اتنے چھوٹے بچے کی صرف کڈنی ہی لی جا سکتی ہے۔ پرماتما نے ہمت دی، گرو نانک صاحب کا فلسفہ ہے، اسی سوچ سے ہم نے فیصلہ لے لیا۔
جناب وزیر اعظم – گروؤں نے جو تعلیمات دی ہیں جی اسے آپ نے جی کر کے دکھایا ہے جی۔ سپریت جی ہیں کیا؟ ان سے بات ہو سکتی ہے؟
سکھبیر جی – جی سر۔
سپریت جی – ہیلو۔
جناب وزیر اعظم – سپریت جی، میں آپ کو پرنام کرتا ہوں
سپریت جی – نمسکار سر نمسکار، سر یہ ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ آپ ہم سے بات کر رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – آپ نے اتنا بڑا کام کیا ہے اور میں مانتا ہوں، ملک یہ ساری باتیں جب سنے گا تو بہت لوگ کسی کی زندگی بچانے کے لیے آگے آئیں گے۔ ابابت کا یہ تعاون ہے، یہ بہت بڑا ہے جی۔
سپریت جی – سر یہ بھی گرو نانک بادشاہ جی شاید بخشش تھی کہ انہوں نے ہمت دی ایسا فیصلہ لینے میں۔
جناب وزیراعظم – گروؤں کی کرپا کے بنا تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا جی۔
سپریت جی – بالکل سر، بالکل۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی، جب آپ اسپتال میں ہوں گے اور یہ ہلا دینے والی خبر جب ڈاکٹر نے آپ کو دی، اس کے بعد بھی آپ نے صحت مند ذہن سے آپ نے اور آپ کی شریمتی جی نے اتنا بڑا فیصلہ کیا، گروؤں کی سیکھ تو ہے ہی ہے کہ آپ کے من میں اتنا بڑا عمدہ خیال اور واقعی میں ابابت کا جو معنی عام زبان میں کہیں تو مددگار ہوتا ہے۔ یہ کام کر دیا یہ اس پل کو میں سننا چاہتا ہوں۔
سکھبیر جی – سر، دراصل ہمارے ایک فیملی فرینڈ ہیں پریہ جی، انہوں نے اپنے آرگن ڈونیٹ کیے تھے۔ ان سے بھی ہمیں حوصلہ ملا تو اس وقت تو ہمیں لگاکہ جسم جو ہے، پانچ عناصر میں تحلیل ہو جائے گا۔ جب کوئی بچھڑ جاتا ہے، چلا جاتا ہے، تو اسک ے جسم کو جلا دیا جاتا ہے یا دبا دیا جاتا ہے، لیکن اگر اس کے آرگن کسی کے کام آ جائیں، تو یہ بھلے کا ہی کام ہے، اور اس وقت ہمیں اور فخر محسوس ہوا، جب ڈاکٹروں نے یہ بتایا ہمیں کہ آپ کی بیٹی، انڈیا کی ینگیسٹ ڈونر بنی ہے، جس کے آرگن کامیابی سے ٹرانس پلانٹ ہوئے، تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہو گیا کہ جو نام ہم اپنے والدین کا اس عمر تک نہیں کر پائے، ایک چھوٹا سا بچہ آ کر اتنے دنوں میں ہمارا نام اونچا کر گیا اور اس سے اور بڑی بات ہے کہ آج آپ سے بات ہو رہی ہے اس موضوع پر۔ ہم پراؤڈ فیل کر رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی، آج آپ کی بیٹی کا صرف ایک عضو زندہ ہے، ایسا نہیں ہے۔ آپ کی بیٹی انسانیت کی لازوال کہانی کی لازوال مسافر بن گئی ہے۔ اپنے جسم کے حصہ کے ذریعے وہ آج بھی موجود ہے۔ اس نیک کام کے لیے، میں آپ کی، آپ کی شریمتی جی کی، آپ کی فیملی کی تعریف کرتا ہوں۔
سکھبیر جی – تھینک یو سر۔
ساتھیو، آرگن ڈونیشن کے لیے سب سے بڑا جذبہ یہی ہوتا ہے کہ جاتے جاتے بھی کسی کا بھلا ہو جائے، کسی کی زندگی بچ جائے۔ جو لوگ، آرگن ڈونیشن کا انتظار کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انتظار کا ایک ایک لمحہ گزرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اور ایسے میں جب کوئی عضو یا جسم کا عطیہ کرنے والا مل جاتا ہے، تو اس میں ایشور کی شکل ہی نظر آتی ہے۔ جھارکھنڈ کی رہنے والی اسنیہ لتا چودھری جی بھی ایسی ہی تھیں جنہوں نے ایشور بن کر دوسروں کو زندگی دی۔ 63 سال کی اسنیہ لتا چودھری جی، اپنا دل، کڈنی اور لیور، عطیہ کر گئیں۔ آج ’من کی بات‘ میں، ان کے بیٹے بھائی ابھجیت چودھری جی ہمارے ساتھ ہیں۔ آئیے ان سے سنتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی نمسکار۔
ابھجیت جی – پرنام سر۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی، آپ ایک ایسی ماں کے بیٹے ہیں جس نے آپ کو جنم دے کر ایک طرح سے زندگی تو دی ہے، لیکن اور جو اپنی موت کے بعد بھی آپ کی ماتا جی کئی لوگوں کو زندگی دے کر گئیں۔ ایک بیٹے کے ناطے ابھجیت آپ ضرور فخر محسوس کرتے ہوں گے
ابھجیت جی – ہاں جی سر۔
جناب وزیر اعظم – آپ، اپنی ماتا جی کے بار میں ذرا بتائیے، کن حالات میں آرگن ڈونیشن کا فیصلہ لیا گیا؟
ابھجیت جی – میری ماتا جی، سرائیکیلا بول کر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جھارکھنڈ میں، وہاں پر میرے ممی پاپا دونوں رہتے ہیں۔ یہ پچھلے پچیس سال سے لگاتار مارننگ واک کرتے تھے اور اپنے ہیبٹ کے مطابق صبح 4 بجے اپنے مارننگ واک کے لیے نکلی تھیں۔ اس وقت ایک موٹر سائیکل والے نے ان کو پیچھے سے دھکہ مارا اور وہ اسی وقت گر گئیں جس سے ان کو سر پہ بہت زیادہ چوٹ لگا۔ فوراً ہم لوگ ان کو صدر اسپتال سرائیکیلا لے گئے جہاں ڈاکٹر صاحب نے ان کی مرہم پٹی کی، مگر خون بہت نکل رہا تھا۔ اور ان کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ فوراً ہم لوگ ان کو ٹاٹا مین ہاسپیٹل لے کر چلے گئے۔ وہاں ان کی سرجری ہوئی، 48 گھنٹے کے آبزرویشن کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بولا کہ وہاں سے چانسز بہت کم ہیں۔ پھر ہم نے ان کو ایئرلفٹ کرکے ایمس دہلی لے کر آئے ہم لوگ۔ یہاں پر ان کی ٹریٹمنٹ ہوئی تقریباً 8-7 دن۔ اس کے بعد پوزیشن ٹھیک تھا، ایک دم ان کا بلڈ پریشر کافی گر گیا، اس کے بعد چلا ان کی برین ڈیتھ ہو گئی ہے۔ تب پھر ڈاکٹر صاحب ہمیں پروٹوکال کے ساتھ بریف کر رہے تھے آرگن ڈونیشن کے بارے میں۔ ہم اپنے والد صاحب کو شاید یہ نہیں بتا پاتے کہ آرگن ڈونیشن ٹائپ کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، کیوں کہ ہمیں لگا، وہ اس بات کو ہضم نہیں کر پائیں گے، تو ان کے دماغ سے ہم یہ نکالنا چاہتے تھے کہ ایسا کچھ چل رہا ہے۔ جیسے ہی ہم نے ان کو بولا کہ آرگن ڈونیشن کی باتیں چل رہی ہیں۔ تب انہوں نے یہ بولا کہ نہیں نہیں، یہ ممی کا بہت من تھا اور ہمیں یہ کرنا ہے۔ ہم کافی مایوس تھے اس وقت تک جب تک ہمیں یہ پتہ چلا تھا کہ ممی نہیں بچ سکیں گی، مگر جیسے ہی یہ آرگن ڈونیشن والا ڈسکشن چالو ہوا وہ مایوسی ایک بہت ہی پازیٹو سائڈ چلی گئی اور ہم کافی اچھے ایک بہت ہی پازیٹو انوائرمنٹ میں آ گئے۔ اس کو کرتے کرتے پھر ہم لوگ، رات میں 8 بجے کاؤنسلنگ ہوئی۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے آرگن ڈونیشن کیا۔ اس میں ممی کی ایک سوچ بہت بڑی تھی کہ پہلے وہ کافی آنکھوں کے عطیہ اور ان چیزوں میں، سوشل اکٹیوٹیز میںیہ بہت ایکٹو تھیں۔ شاید یہی سوچ کو لے کر کے یہ اتنی بڑی چیز ہم لوگ کر پائے، اور میرے والد صاحب کا جو ڈسیزن میکنگ تھا اس چیز کے بارے میں، اس وجہ سے یہ چیز ہو پائی۔
جناب وزیر اعظم – کتنے لوگوں کو کام آیا آرگن؟
ابھجیت جی – ان کا ہارٹ، دو کڈنی، لیور اور دونوں آنکھ، یہ ڈونیشن ہوا تھا تو چار لوگوں کی جان اور دو لوگوں کو آنکھ ملی ہے۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی، آپ کے والد اور والدہ دونوں تعریف کے مستحق ہیں۔ میں ان کو پرنام کرتا ہوں اور آپ کے والد نے اتنے بڑے فیصلہ میں، آپ کی فیملی کے لوگوں کی قیادت کی، یہ واقعی بہت ہی حوصلہ افزا ہے اور میں مانتا ہوں کہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں ایک اپنے آپ میں حوصلہ بھی ہوتی ہے۔ لیکن ماں جو روایات چھوڑ کر جاتی ہیں، وہ نسل در نسل، ایک بہت بڑی طاقت بن جاتی ہیں۔ آرگن ڈونیشن کے لیے آپ کی ماتا جی کی ترغیب پورے ملک تک پہنچ رہی ہے۔ میں آپ کے اس مقدس کام اور عظیم کام کے لیے آپ کی پوری فیملی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ابھجیت جی شکریہ، اور آپ کے والد کو ہمارا پرنام ضرور کہہ دینا۔
ابھجیت جی – ضرور ضرور، تھینک یو۔
ساتھیو، 39 دن کی بابت کور ہو یا 63 سال کی اسنیہ لتا چودھری، ان کے جیسے دان ویر، ہمیں زندگی کی اہمیت سمجھا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں، آج بڑی تعداد میں ایسے ضرورت مند ہیں، جو صحت مند زندگی کی امید میں کسی آرگن ڈونیٹ کرنے والے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے اطمینان ہے کہ آرگن ڈونیشن کو کو آسام بنانے اور ترغیب دینے کے لیے پورے ملک میں ایک جیسی پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس سمت میں ریاستوں کے ڈومیسائل کی شرط کو ہٹانے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے، یعنی اب ملک کی کسی بھی ریاست میں جا کر مریض آرگن حاصل کرنے کے لیے رجسٹر کروا پائے گا۔ سرکار نے آرگن ڈونیشن کے لیے 65 سال سے کم عمر کی عمر کی حد کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ان کوششوں کے درمیان، میری ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ آرگن ڈونر زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ آپ کا ایک فیصلہ، کئی لوگوں کی زندگی بچا سکتا ہے، زندگی بنا سکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ نوراتر کا وقت ہے، شکتی کی اپاسنا کا وقت ہے۔ آج، بھارت کی جو صلاحیت نئے سرے سے نکھر کر سامنے آ رہی ہے، اس میں بہت بڑا رول ہماری خواتین کی طاقت کا ہے۔ حالیہ دنوں ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ آپ نے سوشل میڈیا پر، ایشیا کی پہلی خاتون لوکو پائلٹ سریکھا یادو جی کو ضرور دیکھا ہوگا۔ سریکھا جی، ایک اور ریکارڈ بناتے ہوئے وندے بھارت ایکسپریس کی بھی پہلی خاتون لوکو پائلٹ بن گئی ہیں۔ اسی مہینے، پروڈیوسر گنیت مونگا اور ڈائرکٹر کارتکی گونزالویس ان کی ڈاکیومنٹری ’ایلیفنٹ وسپیررز‘ نے آسکر جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ملک کے لیے ایک اور کامیابی بھابھا ایٹامک ریسرچ سنٹر کی سائنٹسٹ، بہن جیوترمئی موہنتی جی نے بھی حاصل کی ہے۔ جیوترمئی جی کو کیمسٹری اور کیمیکل انجینئرنگ کی فیلڈ میں آئی یو پی اے سی کا اسپیشل ایوارڈ ملا ہے۔ اس سال کی شروعات میں ہی بھارت کی انڈر-19 خواتین کرکٹ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر نئی تاریخ رقم کی۔ اگر آپ سیاست کی طرف دیکھیں گے، تو ایک نئی شروعات ناگالینڈ میں ہوئی ہے۔ ناگالینڈ میں 75 برسوں میں پہلی بار دو خاتون ایم ایل اے جیت کر اسمبلی پہنچی ہیں۔ ان میں سے ایک کو ناگالینڈ حکومت میں وزیر بھی بنایا گیا ہے، یعنی ریاست کے لوگوں کو پہلی بار ایک خاتون وزیر بھی ملی ہیں۔
ساتھیو، کچھ دنوں پہلے میری ملاقات ان جانباز بیٹیوں سے بھی ہوئی، جو ترکی تباہ کن زلزلہ کے بعد وہاں کے لوگوں کی مدد کے لیے گئی تھیں۔ یہ سبھی این ڈی آر ایف کے دستہ میں شامل تھیں۔ ان کی شجاعت اور مہارت کی پوری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے۔ بھارت نے یو این مشن کے تحت امن فوج میں ویمن آنلی پلاٹون کی بھی تعیناتی کی ہے۔
آج، ملک کی بیٹیاں تینوں افواج میں اپنی شجاعت کا پرچم بلند کر رہی ہیں۔ گروپ کیپٹن شالیجا دھامی کامبیٹ یونٹ میں کمانڈ اپائنٹمنٹ پانے والی پہلی خاتون فضائیہ افسر بنی ہیں۔ ان کے پاس تقریباً 3 ہزار گھنٹے کا فلائنگ ایکسپیرئنس ہے۔ اسی طرح، ہندوستانی فوج کی جانباز کیپٹن شیوا چوہان، سیاچن میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون افسر بنی ہیں۔ سیاچن میں جہاں درجہ حرارت مائنس ساٹھ (60-) ڈگری تک چلا جاتا ہے، وہاں شیوا تین مہینوں کے لیے تعینات رہیں گی۔
ساتھیو، یہ لسٹ اتنی لمبی ہے کہ یہاں سب کا ذکر کرنا بھی مشکل ہے۔ ایسی تمام خواتین، ہماری بیٹیاں، آج بھارت اور بھارت کے خوابوں کو توانائی بخش رہی ہیں۔ خواتین کی طاقت کی یہ توانائی ہی ترقی یافتہ ہندوستان کی جان ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ان دنوں پوری دنیا میں صاف توانائی، قابل تجدید توانائی کی خوب بات ہو رہی ہے۔ میں جب دنیا کے لوگوں سے ملتا ہوں، تو وہ اس شعبے میں بھارت کی غیر معمولی کامیابی کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ خاص کر، بھارت سولر انرجی کے شعبے میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ بھارت کے لوگ تو صدیوں سے سورج سے خاص طور پر ناطہ رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں سورج کی طاقت کو لے کر جو سائنسی سمجھ رہی ہے، سورج کی عبادت کی جو روایات رہی ہیں، وہ دیگر جگہوں پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ملک کا ہر شہری شمسی توانائی کی اہمیت بھی سمجھ رہا ہے، اور کلیئر انرجی میں اپنا تعاون بھی دینا چاہتا ہے۔ ’سب کا پریاس‘ کا یہی جذبہ آج بھارت کے سولر مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مہاراشٹر کے پونے میں، ایسی ہی ایک بہترین کوشش نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ یہاں ایم ایس آر-اولیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے لوگوں نے طے کیا کہ وہ سوسائٹی میں پینے کے پانی، لفٹ اور لائٹ جیسی مجموعی استعمال کی چیزیں، اب سولر انرجی سے ہی چلائیں گے۔ اس کے بعد اس سوسائٹی میں سب نے مل کر سولر پینل لگوائے۔ آج ان سولر پینلز سے ہر سال تقریباً 90 ہزار کلو واٹ گھنٹے بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سے ہر مہینے تقریباً 40 ہزار روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ اس بچت کا فائدہ سوسائٹی کے سبھی لوگوں کو ہو رہا ہے۔
ساتھیو، پونے کی طرح ہی دمن و دیو میں جو دیو ہے، جو ایک الگ ضلع ہے، وہاں کے لوگوں نے بھی، ایک انوکھا کام کرکے دکھایا ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ دیو، سومناتھ کے پاس ہے۔ دیو بھارت کا پہلا ایسا ضلع بنا ہے، جو دن کے وقت سبھی ضرورتوں کے لیے سو فیصد کلین انرجی کا استعمال کر رہا ہے۔ دیو کی اس کامیابی کا منتر بھی سب کی کوشش ہی ہے کبھی یہاں بجلی کی پیداوار کے لیے وسائل کی چنوتی تھی۔ لوگوں نے اس چنوتی کے حل کے لیے سولر انرجی کا انتخاب کیا۔ یہاں بنجر زمین اور کئی بلڈنگوں پر سولر پینلز لگائے گئے۔ ان پینلز سے، دیو میں دن کے وقت جتنی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے زیادہ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سولر پروجیکٹ سے، بجلی خرید پر خرچ ہونے والے تقریباً 52 کروڑ روپے بھی بچے ہیں۔ اس سے ماحولیات کی بھی بڑی حفاظت ہوئی ہے۔
ساتھیو، پونے اور دیو انہوں ے جو کر دکھایا ہے، ایسی کوششیں ملک بھر میں کئی اور جگہوں پر بھی ہو رہی ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیات اور فطرت کو لے کر ہم ہندوستانی کتنے حساس ہیں، اور ہمارا ملک کس طرح مستقبل کی نسل کے لیے بہت بیدار ہے۔ میں اس قسم کی تمام کوششوں کی تہ دل سے تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں وقت کے ساتھ، حالات کے مطابق، متعدد روایات پروان چڑھی ہیں۔ یہی روایات، ہماری ثقافت کی صلاحیت بڑھاتی ہے اور اسے ہمیشہ طاقت بھی بخشتی ہے۔ کچھ مہینے پہلے ایسی ہی ایک روایت شروع ہوئی کاشی میں۔ کاشی-تمل سنگمم کے دوران، کاشی اور تمل علاقے کے درمیان صدیوں سے چلے آ رہے تاریخی اور ثقافتی رشتوں کو سیلیبریٹ کیا گیا۔ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا جذبہ ہمارے ملک کو مضبوط دیتا ہے۔ ہم جب ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہیں، سیکھتے ہیں، تو اتحاد کا یہ جذبہ اور مضبوط ہوتا ہے۔ اتحاد کے اسی جذبہ کے ساتھ اگلے مہینے گجرات کے مختلف حصوں میں ’سوراشٹر-تمل سنگمم‘ ہونے جا رہا ہے۔ ’سوراشٹر-تمل سنگمم‘ 17 سے 30 اپریل تک چلے گا۔ ’من کی بات‘ کے کچھ سامعین ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ گجرات کے سوراشٹر کا تمل ناڈو سے کیا تعلق ہے؟ دراصل، صدیوں پہلے سوراشٹر کے کئی لوگ تمل ناڈو کے الگ الگ حصوں میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ لوگ آجب ھی ’سوراشٹری تمل‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے کھان پان، رہن سہن، سماجی اخلاقیات میں آج بھی کچھ کچھ سوراشٹر کی جھلک مل جاتی ہے۔ مجھے اس پروگرام کو لے کر تمل ناڈو سے بہت سے لوگوں نے سراہنا بھرے خط لکھے ہیں۔ مدورئی میں رہنے والے جے چندرن جی نے ایک بڑی ہی جذباتی بات لکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہزار سال کے بعد، پہلی بار کسی نے سوراشٹر تمل کے ان رشتوں کے بارے میں سوچا ہے، سوراشٹر سے تمل ناڈو آ کر آباد ہوئے لوگوں کو پوچھا ہے۔‘‘ جے چندرن جی کی باتیں، ہزاروں تمل بھائی بہنوں کے دل کی بات ہے۔
ساتھیو، ’من کی بات‘ کے سامعین کو میں آسام سے جڑی ہوئی ایک خبر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبہ کو مضبوط کرتی ہے۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہم ویر لاست بورپھوکن جی کی 400ویں جینتی منا رہے ہیں۔ ویر لاست بورپھوکن نے ظالم مغل سطنت کے ہاتھوں سے گوہاٹی کو آزاد کروایا تھا۔ آج ملک، اس عظیم جانباز کی بے پناہ شجاعت سے متعارف ہو رہا ہے۔ کچھ دن پہلے لاست بورپھوکن کی زندگی پر مبنی مضمون نگاری کی ایک مہم چلائی گئی تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس کے لیے تقریباً 45 لاکھ لوگوں نے مضمون بھیجے۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ اب یہ ایک گنیز ریکارڈ بن چکا ہے۔ اور سب سے بڑی بات ہے اور جو زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ویر لاست بورپھوکن پر یہ جو مضامین لکھے گئے ہیں،اس میں قریب قریب 23 الگ الگ زبانوں میں لکھا گیا ہے اور لوگوں نے بھیجا ہے۔ ان میں، آسامی زبان کے علاوہ، ہندی، انگریزی، بنگالی، بوڈو، نیپالی، سنسکرت، سنتھالی جیسی زبانوں میں لوگوں نے مضمون بھیجے ہیں۔ میں اس کوشش کا حصہ بنے سبھی لوگوں کی دل سے تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کشمیر یا سرینگر کی بات ہوتی ہے، تو سب سے پہلے ہمارے سامنے اس کی وادیاں اور ڈل جھیل کی تصویر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی ڈل جھیل کے نظاروں کا لطف اٹھانا چاہتا ہے، لیکن ڈل جھیل میں ایک اور بات خاص ہے۔ ڈل جھیل، اپنے ذائقہ دار لوٹس اسٹیمس – کمل کے تنوں یا کمل ککڑی کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ کمل کے تنوں کو ملک میں الگ الگ جگہ، الگ الگ نام سے، جانتے ہیں۔ کشمیر میں انہیں نادرو کہتے ہیں۔ کشمیر کے نادرو کی ڈیمانڈ لگاتار بڑھ رہی ہے۔ اس ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے ڈل جھیل میں نادرو کی کھیتی کرنے والے کسانوں نے ایک ایف پی او بنایا ہے اس ایف پی او می تقریباً 250 کسان شامل ہوئے ہیں۔ آج یہ کسان اپنے نادرو کو بیرونی ممالک تک بھیجنے لگے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ان کسانوں نے دو کھیپ یو اے ای بھیجی ہے۔ یہ کامیابی کشمیر کا نام تو کر ہی رہی ہے، ساتھ ہی اس سے سینکڑوں کسانوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے۔
ساتھیو، کشمیر کے لوگوں کا زراعت سے ہی جڑئی ہوئی ایک اور کوشش ان دنوں اپنی کامیابی کی خوشبو پھیلا رہی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کامیابی کی خوشبو کیوں بول رہا ہوں – بات ہے ہی خوشبو کی! دراصل، جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں ایک قصبہ ہے ’بھدرواہ‘! یہاں کے کسان دہائیوں سے مکئی کی روایتی کھیتی کرتے آ رہے تھے، لیکن کچھ کسانوں نے کچھ الگ کرنے کی سوچی۔ انہوں نے فلوری کلچر، یعنی پھولوں کی کھیتی کا رخ کیا۔ آج یہاں کے تقریباً 25 سو کسان (ڈھائی ہزار کسان) لیونڈر کی کھیتی کر رہے ہیں۔ انہیں مرکزی حکومت کے ایروما مشن سے مدد بھی ملی ہے۔ اس نئی کھیتی نے کسانوں کی آمدنی میں بڑا اضافہ کیا ہے، اور آج لیونڈر کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابی کی خوشبو بھی دور دور تک پھیل رہی ہے۔
ساتھیو، جب کشمیر کی بات ہو، کمل کی بات ہو، پھول کی بات ہو، خوشبو کی بات ہو، تو کمل کے پھول پر تشریف فرما ماں شاردا کی یاد آنا بہت فطری ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کپواڑہ میں ماں شاردا کے عالیشان مندر کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ مندر اسی راستے پر بنا ہے، جہاں سے کبھی شاردا پیٹھ کے درشنوں کے لیے جایا کرتے تھے مقامی لوگوں نے اس مندر کی تعمیر میں بہت مدد کی ہے۔ میں، جموں کشمیر کے لوگوں کو اس نیک کام کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں بس اتنا ہی۔ اگلی بار، آپ سے ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ میں ملاقات ہوگی۔ آپ سبھی، اپنے مشورے ضرور بھیجئے۔ مارچ کے اس مہینہ میں، ہم ہولی سے لے کر نوراتری تک، کئی پرو اور تہواروں میں مصروف رہے ہیں۔ رمضان کا مقدس مہینہ بھی شروع ہو چکا ہے اگلے کچھ دنوں میں شری رام نومی کا مہا پرو بھی آنے والا ہے۔ اس کے بعد مہاویر جینتی، گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بھی آئیں گے۔ اپریل کے مہینہ میں ہم بھارت کی دو عظیم شخصیات کی جینتی بھی مناتے ہیں۔ یہ دو عظیم شخصیات ہیں – مہاتما جیوتبا پھلے، اور بابا صاحب امبیڈکر ان دونوں ہی شخصیات نے سماج میں بھید بھاؤ مٹانے کے لیے غیر معمولی تعاون دیا۔ آج، آزادی کے امرت کال میں، ہمیں ایسی عظیم شخصیات سے سیکھنے اور مسلسل ترغیب حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں، اپنے فرائض کو سب سے آگے رکھنا ہے۔ ساتھیو، اس وقت کچھ جگہوں پر کورونا بھی بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آپ سبھی کو احتیاط برتنی ہے، صفائی کا بھی دھیان رکھنا ہے۔ اگلے مہینے ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ میں ہم لوگ پھر ملیں گے، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجئے۔ شکریہ۔ نمسکار۔