
عندلیب اختر
نائب صدر، شری ایم وینکیا نائیڈو نے تما م ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دیگر ممالک میں فرار ہونے والے معاشی مجرموں کو فوری طور پر مطلوبہ ممالک واپس سونپنے کو یقینی بنائیں۔ انھوں نے کہا کہ عوام کا پیسہ لوٹنے اور بیرون ملک محفوظ پناہ تلاش کرنے والے لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ دنوں سورت میں ’جنوبی گجرات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں جنوبی گجرات کی صنعتی اور تجارتی برادری سے خطاب کرتے ہوئے، نائب صدر نے صنعت سے اپیل کی کہ وہ ایسی کالی بھیڑوں کو الگ تھلگ کریں جو پوری کاروباری برادری کا نام بدنام کرتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کی تجارت اور کاروبار کی بھر پور روایت کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہم یقینی طور پر اس ماضی کی عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہندوستان کو ایک بار پھر سے ”سونے کی چڑیا“ بنا سکتے ہیں۔تیزی سے بدلتے ہوئے تکنیکی منظر نامے اور آنے والے چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، شری نائیڈو نے انڈسٹری کو اس کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان کی آبادیاتی تقسیم ہمیں اس کام میں نمایاں فائدہ دیتی ہے اور انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے نوجوان مناسب طور پر ہنرمند، حوصلہ افزا ہوں اور انھیں صحیح مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ مطلوبہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔نوجوانوں کے ہنر کی تربیت اور ابھرتے ہوئے تاجروں کی رہنمائی میں صنعت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے پر زور دیتے ہوئے، نائیڈو نے کہا کسی بھی معیشت کی کامیابی کی کہانی کو تحریر کرنے میں نجی شعبے کے اہم کردار پر زور دیا۔ انھوں نے کاروباری دنیا میں نئے قدم جمانے والے لوگوں کی مدد کے لیے گجراتی کاروباری براداری کی تعریف کی اور تمام تاجروں سے نوجوان تاجروں کی مدد اور رہنمائی کرنے کی درخواست کی۔جناب نائیڈو کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو صرف ملازمت کا متلاشی نہیں ہونا چاہیے اور بلکہ انہیں ملازمت فراہم کنندہ بننا چاہیے۔ نائب صدر نے حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہوئے، کہا کہ وہ لوگوں اور کاروبار کو بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کے لیے صحیح انفراسٹرکچر، سہولیات اور ماحولیاتی نظام کی تشکیل پر توجہ دیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ دولت تقسیم کرنے سے پہلے تخلیق کرنے کی ضرورت ہے اور دولت کے تخلیق کاروں کو مناسب احترام دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا، ”کاروبار کو سراہا جانا چاہیے نہ کہ رشک کیا جانا چاہیے“۔
اس موقع پر، نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ ”آتم نربھر بھارت“ہندوستانی کاروبار کو ایک بہت بڑا موقع فراہم کرتا ہے اور انھوں نے وہاں موجود لوگوں کو معیشت کے دوسرے شعبوں میں پی پی ای کٹ کامیابی کی کہانی دہرانے کی تاکید کی۔
اس موقع پر، نائب صدر نے کووڈ-19 وبائی مرض سے لڑنے میں نجی شعبے کے کردار کے بھی تعریف کی۔ انھوں نے کہا، ”ہم نہ صرف اپنی بہت بڑی آبادی کو ویکسین دے رہے ہیں بلکہ متعدد غریب ممالک کو گھریلو سطح پر تیار شدہ کووڈ-19 ویکسین کی مفت خوراکیں بھی فراہم کر رہے ہیں“۔
انھوں نے اس حقیقت پربھی روشنی ڈالی کہ لاک ڈاؤن سے پہلے، بھارت میں پی پی ای کٹس اور N-95 جیسے چہرے کے ماسک کی پیداواری صلاحیت نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں، ہم پی پی ای کٹس کے دوسرے سب سے بڑے پروڈیوسر کے طور پر ابھرے ہیں۔ انھوں نے کہا، ”ہم آج نہ صرف اپنی طلب کو پورا کر رہے ہیں بلکہ ان ضروری اشیا کو کئی ممالک میں برآمد بھی کر رہے ہیں۔
’آتم نربھر بھارت ابھیان‘ کو کووڈ-19 وبا سے حاصل ایک اہم سبق کے طور پر ذکر کرتے ہوئے، نائب صدر نے کہا کہ ہندوستانی معیشت کا بڑا حصہ غیرملکی فراہمی پر ہمیشہ کے لیے انحصار نہیں کر سکتا۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ اس طرح کا انحصار ہمیں عالمی سپلائی چین میں رکاوٹ یا خلل کا شکار بناتا ہے۔
پی پی ای کٹس جیسی ضروری اشیا کی قیمتوں میں ہونے والی زبردست کمی کا ذکر کرتے ہوئے، مسٹر نائیڈو نے کہا کہ وبائی مرض نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ اگر ہم اپنے ملک میں اس طرح کی اشیا تیار کرنے کی اہلیت پیدا کریں تو ہم لاگت کو کم کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف ہمارے صارفین کو فائدہ ہوگا بلکہ عالمی منڈیوں سے یہ سامان خریدنے کے لیے درکار ہمارے قیمتی زر مبادلہ کو بھی بچایا جا سکے گا۔ (اے ایم این)