Image



اے ایم این
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اہم ترین جائزے میں کہا گیا ہے کہ غربت میں نمایاں کمی لانا ممکن ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے نئے طریقے امدادی اداروں اور حکومتوں کو ان جگہوں پر امداد پہنچانے میں مدد دے سکتے ہیں جہاں اس کی زیادہ اور فوری ضرورت ہو۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے غربت اور انسانی ترقی کے اقدام (او پی ایچ آئی) کے مشترکہ تجزیے ‘غربت سے متعلق ہمہ جہتی اشاریے’ (ایم پی آئی) میں محض غربت جانچنے کے لیے غربت کی جانچ نہیں کی گئی بلکہ یہ اس حوالے سے معیارات زندگی جیسا کہ تعلیم اور صحت سے لے کر رہائش، پینے کے پانی، نکاسی آب اور بجلی تک رسائی جیسے دیگر اشاریوں کے ذریعے غربت کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔غربت کے مسئلے کی اس انداز میں جانچ کے بعد پیش کردہ جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ۔19 وباء اور روزمرہ زندگی کے اخراجات سے متعلق حالیہ بحران سے پہلے ہی 111 ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 1.2 ملین لوگ شدید نوعیت کی غربت کا شکار تھے جو کہ ان لوگوں سے قریباً دگنی تعداد ہے جنہیں 1.90 ڈالر روزانہ سے کم آمدنی کے پیمانے پر غریب گنا جاتا ہے۔
ہمہ جہت حکمتِ عملی
چونکہ مختلف خطوں میں غربت کے مختلف پہلو ملتے ہیں اس لیے اس جائزے میں ایسی حکمت عملی کو ترقی دینے کے لیے کہا گیا ہے جس کے ذریعے ممالک اور خطوں کے مخصوص حالات کے مطابق اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔اس میں غربت کے متواتر سامنے آنے والے نمونوں (”محرومی کے مجموعے”) کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو غیرمحفوظ لوگوں پر عام اثرانداز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ، غربت میں رہنے والے نصف سے زیادہ لوگوں کو بجلی اور کھانا بنانے کے لیے ماحول دوست ایندھن تک رسائی نہیں ہوتی جبکہ ایسے ایک تہائی لوگ بیک وقت غذائیت، کھانا بنانے کے لیے درکار ایندھن، نکاسی آب اور رہائش سے محروم ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر عوامی جمہوریہ لاؤس میں خاندانوں کو ہونے والے تجربات غربت میں زندگی بسر کرنے کی باہم مربوط نوعیت اور اسے کم کرنے میں حائل پیچیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
وہاں بچوں کو آگ جلانے کے لیے لکڑی جمع کرنے بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ سکول جا سکیں کیونکہ ان کے پاس کھانا بنانے کے لیے درکار ایندھن کا فقدان ہوتا ہے۔ اس لیے محض سکول کی تعمیر کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ اس سے پہلے ایندھن کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے۔
اس مسئلے کی شدت کے باوجود غربت کو کم کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔بھارت میں 15 سال کے عرصہ میں تقریباً 415 ملین لوگ غربت سے نکل آئے ہیں جو ایک تاریخی تبدیلی ہے اور کووڈ۔19 وباء کے آنے سے پہلے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق حالیہ برسوں میں 72 ممالک اپنے ہاں غربت میں نمایاں کمی لائے ہیں۔اس رپورٹ میں ایسے ممالک کی کامیابی کی داستانوں کو بیان کیا گیا ہے جنہوں نے غربت میں کمی لانے کے لیے باہم مربوط حکمت عملی سے کام لیا۔ مثال کے طور پر نیپال میں نکاسی آب کے شعبے میں سرمایہ کاری سے پینے کے پانی تک رسائی اور بچوں کو غذائیت کی فراہمی کی صورتحال بہتر ہوئی اور اسہال اور بچوں کی اموات میں کمی آئی۔
یو این ڈی پی کے سربراہ ایکم سٹائنر نے جائزے کے نتائج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب سرکاری بجٹ کم ہو رہے ہیں تو تازہ ترین اعدادوشمار اور حساب کتاب سے ایسے شعبوں کی نشاندی ہو سکتی ہے جہاں خرچ کرنے کا سب سے زیادہ فائدہ ہو۔انہوں نے کہا، جیسا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ”ای کاربنائزیشن اور ماحول دوست توانائی تک رسائی کو وسعت دینے سے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کو فروغ ملے گا اور یہ کثیر رخی غربت میں رہنے والے تقریباً 600 ملین لوگوں کے لیے بھی اہم ہے جو بجلی اور کھانا بنانے کے ماحول دوست ایندھن سے تاحال محروم ہیں۔”انہوں نے مزید کہا کہ ”اب جبکہ ہم اقوام متحدہ میں اپنے شراکت داروں اور دیگر کے ساتھ مل کر 100 ملین لوگوں کو 2025 تک کثیر رخی غربت سے نکالنے میں مدد دینے کے اپنے دلیرانہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تو ایسے میں یہ جائزہ دنیا بھر میں یو این ڈی پی کے اقدامات کے لیے بہت اہم ہو گا۔”۔۔۔۔۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ غربت کے خاتمے کے ہدف کا حصول کمزور ہو رہا ہے اور ’دنیا الٹی طرف چل پڑی ہے‘۔اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کووڈ۔19 وباء نے پیش رقت کو چار سال پیچھے کر دیا ہے جبکہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات، عالمی کساد بازاری کے گہرے ہوتے بادل، اور موسمیاتی بحران بھی ان کوششوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اس سال اس دن کو ’سب کے لیے باوقار زندگی‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور اسے عالمی طور پر ہنگامی کوششوں کی آواز بننا چاہیے تاکہ غربت کو ماضی کا حصہ بنا دیا جائے۔