اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جنہیں صحت و تعلیم کے بجائے اپنے قرض کی ادائیگی پر زیادہ مالی وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں اور یہ صورتحال ترقیاتی اعتبار سے تباہی کے مترادف ہے۔
عالمگیر بحرانوں سے نمٹنے کے لیے قائم کردہ اقوام متحدہ کے گروپ کی نئی رپورٹ بعنوان “قرض کی دنیا” کے مطابق 52 ممالک قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے سنگین مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔Tweet
یہ تعداد ترقی پذیر دنیا کے 40 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔ سیکرٹری جنرل نے ان ممالک کو فوری مالی سہولت مہیا کرنے کے لیے کہا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں سرکاری قرضے کی مالیت ریکارڈ 92 ٹریلین ڈالر تک رہی جس میں سے ترقی پذیر ممالک کا بوجھ 30 فیصد تھا جو کہ غیرمتناسب مقدار ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف یا ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی جیسی ضروری سرمایہ کاری پر قرضوں کے سود کی ادائیگی کو ترجیح دینے کی حکومتی ضرورت 3.3 بلین لوگوں پر اثرانداز ہو رہی ہے۔
انتونیو گوتیرش نے کہا، ایسا بیشتر ناپائیدار قرض غریب ممالک کے ذمے ہے لہٰذا اسے عالمگیر مالیاتی نظام کے لیے باقاعدہ خطرہ نہیں سمجھا جاتا۔
متروک مالیاتی نظام
انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں سرکاری قرض کی تباہ کن سطح اس نظام کی کلی ناکامی ہے جس نے ہمارے متروک مالیاتی نظام میں رچی بسی نوآبادیاتی دور کی عدم مساوات سے جنم لیا ہے۔
یہ نظام دور حاضر کے غیرمتوقع دھچکوں بشمول وبا، موسمیاتی بحران کے تباہ کن اثرات اور یوکرین پر روس کے حملے جیسے غیرمتوقع دھچکوں سے نمٹنے میں ممالک کی مدد کے لیے حفاظتی ذریعے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
درحقیقت یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو خارجی دھچکوں سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ انہیں غیرملکی کرنسیوں میں اپنا قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔
افریقی ممالک پر بھاری بوجھ
سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اوسطاً افریقی ممالک کے لیے قرض کی قیمتیں امریکہ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ اور امیر ترین یورپی معیشتوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہوتی ہیں۔
غریب ترین ممالک بڑی حد تک نجی قرض دہندگان پر انحصار کرتے ہیں جو قرض کے عوض بہت بھاری سود لیتے ہیں اور اس طرح ان ممالک کو اپنی معیشتوں کی بقا کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔
انتونیو گوتیرش نے کہا کہ قرض ایک اہم مالیاتی ذریعہ تھا لیکن اب یہ ایک پھندا بن گیا ہے جس کے باعث قرض لینے والے ممالک مزید قرض میں پھنس جاتے ہیں۔
ہنگامی اصلاحات
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعدد ہنگامی طریقے تجویز کیے گئے ہیں جن میں ایسا طریقہ کار بھی شامل ہے جس کے ذریعے متوسط آمدنی والے کمزور ممالک سمیت قرض داروں کو ادائیگیوں میں معطلی، قرض کی طویل عرصہ میں واپسی اور کم شرح سود پر قرض لینے کی سہولت ملے۔
یہ رپورٹ کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں کے طریق کار میں تبدیلی لا کر اور انہیں پائیدار ترقی اور نجی وسائل سے کام لینے میں مدد دے کر بڑے پیمانے پر سستے طویل مدتی قرضوں کی فراہمی کے لیے بھی کہتی ہے۔
عملی اقدامات کا وقت
سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ بارباڈوز کی وزیراعظم میا موٹلے کے زیرقیادت برج ٹاؤن ایجںڈا اور پیرس میں نئے عالمگیر مالیاتی معاہدے کے ذریعے ممالک کو قرض میں سہولت دینے کے لیے دیگر اہم تجاویز بھی آئی ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ستمبر میں ہونے والے جی20 اجلاس کے موقع پر ان میں سے چند تجاویز پر کام کیا جائے گا۔