فرانس میں الجزائری اور مراکشی نژاد نوجوان پر پولیس کی فائرنگ کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں اور احتجاج کی تیسری رات کے بعد اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ ملک نفاذ قانون میں نسل پرستی کی اپنی تاریخ پر نظرثانی کرے۔
جمعے کو جنیوا میں جاری ہونے والے ایک بیان میں ‘او ایچ سی ایچ آر’ کی ترجمان روینہ شمداسانی نے جمعرات کو 17 سال ناہل ایم کی موت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جنہیں پیرس کے نواحی علاقے نینترے میں ٹریفک سٹاپ پر کار نہ روکنے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق جمعرات کی شب ملک کے بڑے شہروں میں 875 افراد کو حراست میں لیا گیا جبکہ اس واقعے کے بعد مظاہروں اور ہنگاموں کو کچلنے کے لئے تقریباً 40,000 پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔
فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سڑکوں سے دور رکھیں۔ احتجاج کے دوران پیرس میں پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود دکانوں پر حملے اور کاروں کو آگ لگا دی گئی۔
قتلِ عمد کا الزام
اطلاعات کے مطابق نوجوان کو گولی مارنے والے پولیس افسر نے متاثرہ خاندان سے معافی مانگی ہے اور اس کے خلاف باقاعدہ طور سے قتل عمد کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔
روینہ شمداسانی نے کہا کہ مبینہ قتل عمد کے معاملے میں تفتیشی عمل کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فرانس نفاذ قانون میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے حوالے سے پائے جانے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے۔
طاقت کا متناسب استعمال
انہوں ںے کہا کہ ادارہ پُرامن اجتماع کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے اور حکام سے کہتا ہے کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ احتجاجی مظاہروں میں شامل پُرتشدد عناصر سے نمٹنے کے لئے طاقت کے استعمال میں قانون، ضرورت، تناسب، عدم امتیاز، احتیاط اور جوابدہی کے اصولوں کا ہمیشہ احترام کیا جائے۔
انہوں ںے کہا کہ احتجاج کے حق کو استعمال کرنے کے دوران لوگوں کے ہاتھوں طاقت کے غیرمتناسب استعمال کے تمام الزامات کی فوری تحقیقات بھی کرائی جائیں۔
فرانس کی پولیس کے ریگولیٹر کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدودشمار کے مطابق 2021 میں پولیس کی کارروائیوں کے دوران 37 افراد کی موت ہوئی جن میں سے 10 لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا