جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف انسداد نسل کشی کے کنونشن کے تحت ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کے الزام میں عالمی عدالت انصاف ( ICJ آئی سی جے) میں مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ جانیے کہ  یہ عدالت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے۔

عالمی عدالت انصاف 2019 میں ایک مقدمے کا فیصلہ سنا رہی ہے جس میں ایران اور افریقہ فریق تھے۔
UN Photo/ICJ-CIJ/Frank van Beek

عالمی عدالت انصاف کا مقصد کیا ہے؟

‘آئی سی جے’ نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے شہر دی ہیگ میں واقع امن محل میں قائم ہے۔ اس کا قیام 1945 میں ممالک کے مابین تنازعات کے تصفیے کی غرض سے عمل میں آیا تھا۔ عدالت ایسے قانونی سوالات پر مشاورتی رائے بھی دیتی ہے جو اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی جانب سے اسے بھیجے جاتے ہیں۔ 

اسے عام طور پر ‘عالمی عدالت’ بھی کہا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں سے ایک ہے۔ دیگر میں جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، معاشی و سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی)، تولیتی کونسل اور سیکرٹریٹ شامل ہیں۔ یہ عدالت ان میں واحد ادارہ ہے جو نیویارک سے باہر قائم ہے۔

یورپی یونین کی عدالت انصاف سے برعکس ‘آئی سی جے’ دنیا کی قومی عدالتوں کے لیے اعلیٰ ترین عدالت کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس کے بجائے یہ صرف اسی وقت کسی تنازع پر سماعت کر سکتی ہے جب ایک یا زیادہ ممالک کی جانب سے اس بارے میں درخواست کی جاتی ہے۔

یہ عدالت 15 ججوں پر مشتمل ہے جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نو سالہ مدت کے لیے منتخب کرتی ہیں۔ ان میں ہر تین سال کے بعد پانچ ججوں کا انتخاب ہوتا ہے جن کے متواتر منتخب ہونے پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ جج اپنی حکومتوں کی نمائندگی کرنے کے بجائے آزادانہ حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ کسی ملک سے صرف ایک جج ہی منتخب ہو سکتا ہے۔

کسی تنازع کا تصفیہ درپیش ہو تو فریقین عدالت میں مقدمات درج کراتے اور اپنا قانونی موقف پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد عدالت میں مسئلے پر زبانی سماعت ہوتی ہے جس میں ممالک کے نمائندے اور وکلا ججوں کے سامنے اپنا موقف رکھتے ہیں۔ 

متعلقہ ممالک اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ایک نمائندہ تعینات کرتے ہیں جس کے حقوق اور ذمہ داریاں کسی قومی عدالت میں پیش ہونے والے وکیل جیسی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی نمایاں سیاست دان بھی کسی مسئلے پر اپنے ملک کا دفاع کرتا ہے۔ 2020 میں گیمبیا/میانمار کا مقدمہ اس کی مثال ہے۔ (تفصیلات ذیل میں دیکھیے) 

اس مرحلے کے بعد جج بند دروازوں کے پیچھے مقدمے پر گفت وشنید کرتے ہیں اور پھر عدالت اپنا فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔ عدالت میں کوئی مقدمہ چند ہفتوں سے لے کر کئی برس تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔

‘آئی سی جے’ کیوں اہم ہے؟

‘آئی سی جے’ واحد عالمی عدالت ہے جو اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کے مابین تنازعات کو دور کرواتی ہے۔ اس طرح یہ ممالک کو جنگ سے بچاتے ہوئے ان کے مسائل حل کروا کے عالمی امن و سلامتی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 

عالمی عدالت میں کون سے مقدمات  لائے جاتے ہیں؟

عدالت دو طرح کے مقدمات پر فیصلے دے سکتی ہے۔ ان میں ایک ‘نزاعی معاملات’ ہیں جنہیں ممالک کے مابین قانونی تنازعات کہا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے ‘مشاورتی قانونی کارروائی’ کہلاتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ اور دیگر مخصوص اداروں کی جانب سے قانونی معاملات پر طلب کردہ مشاورتی آرا ہوتی ہیں۔

گزشتہ برس 29 دسمبر کو جنوبی افریقہ کی جانب سے درج کرایا گیا مقدمہ اسرائیل کے خلاف نزاعی دعوے کی پہلی مثال ہے۔ (2004 میں عدالت نے ایک مشاورتی رائے میں بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقے اور مشرقی یروشلم کے اندر اور اس کے اردگرد دیوار کی تعمیر اور متعلقہ نظام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے).

جنوبی افریقہ کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ “اسرائیل کے اقدامات نسل کش نوعیت کے ہیں۔ ان کا ارتکاب غزہ میں فلسطینیوں کے بڑے، قومی و نسلی گروہ کو تباہ کرنے کے مخصوص ارادے سے کیا گیا ہے۔”

جنوبی افریقہ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ انسداد نسل کشی سے متعلق 1948 میں منظور کردہ اقوام متحدہ کے کنونشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے پر فیصلہ دے۔ اسرائیل نے ان الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے۔

تین سال قبل اس سے ملتے جلتے ایک اور مقدمے نے بھی عالمی توجہ حاصل کی تھی جس میں عدالت نے میانمار کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی اقلیتی روہنگیا آبادی کو تحفظ مہیا کرے۔ یہ مقدمہ افریقی ملک گیمبیا نے درج کرایا تھا۔ اس میں تب میانمار کی حکومت کی رہنما آنگ سان سو کی بھی اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔ 

جہاں تک ‘مشاورتی قانونی کارروائی’ کا تعلق ہے تو 20 جنوری 2023 کو جنرل اسمبلی نے عدالت سے مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر رائے دینے کو کہا تھا۔ 

مارچ 2023 میں جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ممالک کی ذمہ داریوں پر مشاورتی رائے مہیا کرے۔ اس اقدام کے حوالے سے اسمبلی میں ہونے والے مباحثے میں بیشتر مقررین نے اسے موسمیاتی انصاف کے لیے دہائیوں پر محیط جدوجہد میں ایک اہم کامیابی قرار دیا۔ ان دونوں معاملات پر مشاورتی قانونی کارروائی جاری ہے۔ 

عدالت میں مقدمہ کون لا سکتا ہے؟

اقوام متحدہ کا کوئی بھی رکن ملک کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف مقدمہ درج کرا سکتا ہے۔ جب عالمی برادری کا مشترکہ مفاد خطرے میں ہو تو عدالت میں مقدمہ لانے والے ملک کا متنازع معاملے میں فریق ہونا لازمی نہیں۔ 

گیمبیا نے اسلامی تعاون کی تنظیم کی  جانب سے میانمار کے خلاف نسل کشی کے الزامات میں مقدمہ درج کرایا جبکہ گیمبیا خود اس مسئلے کا فریق نہیں تھا۔

عدالتی فیصلے کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟

‘آئی سی جے’ کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں جن کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان فیصلوں کا اپنے قومی دائرہ اختیار میں اطلاق متعلقہ ممالک کی ذمہ داری ہوتی ہے اور عام طور پر وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے اور عدالتی احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ 

اگر کوئی ملک عدالت کے کسی فیصلے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری میں ناکام رہے تو پھر متاثرہ ملک آخری چارے کے طور پر سلامتی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے۔ سلامتی کونسل متعلقہ معاملے پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قرارداد کی منطوری دے سکتی ہے۔ 1984 میں امریکہ کے خلاف نکارا گوا کے مقدمے میں یہی کچھ ہوا تھا جب نکارا گوا نے کونٹرا باغیوں کے لیے امریکہ کی مدد کے خلاف ازالے کے لیے مقدمہ درج کرایا تھا۔ 

‘آئی سی جے’ نے نکارا گوا کے حق میں فیصلہ دیا جسے امریکہ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ نکارا گوا یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لے گیا جہاں اس کے حق میں قرارداد پیش کی گئی۔ تاہم امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔

‘آئی سی جے’ اور ‘آئی سی سی’ میں کیا فرق ہے؟

عام طور پر جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی) اور عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کو ایک ہی ادارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں فرق ہے اور وہ یہ کہ ‘آئی سی جے’ میں ممالک کے خلاف مقدمات دائر کیے جاتے ہیں جبکہ ‘آئی سی سی’ جرائم پر فیصلہ دینے والی عدالت ہے۔ یہ جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات سنتی ہے۔

دونوں میں ایک اور فرق یہ ہے کہ ‘آئی سی جے’ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جبکہ ‘آئی سی سی’ قانونی طور پر اقوام متحدہ کا حصہ نہیں (تاہم اس کی توثیق جنرل اسمبلی نے ہی کی ہے) 

اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ‘آئی سی سی’ کے فریق نہیں ہیں۔ تاہم یہ کسی بھی رکن ملک یا عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے والے ملک کے شہری کی جانب سے یا اس کی سرزمین سے ہونے والے مبینہ جرائم کی تحقیقات کر سکتی ہے۔ 

‘آئی سی سی’ جنسی تشدد کے بطور جنگی ہتھیار استعمال سے لے کر بچوں کو جنگوں کے لیے بھرتی کرنے تک بہت سے جرائم پر مقدمات سننے اور فیصلہ دینے کی مجاز ہے۔

UN NEWS