جو زبان روز مرہ کی زندگی کے کیچڑ-كادو، دھول مٹی، پسینے سے بھیگی نہیں ہوتی، وہ پھل پھول نہیں سکتی.

اپورواند (بی بی سی ہندی سے )

سنسکرت کیوں پڑھیں؟ ‘اس سے جن جن کا من خالص ہوتا ہے اور جگ مقدس.’ گویا سنسکرت زبان نہ ہوئی، گنگا جل ہو گئی، جس میں ڈپ لگانے پر زندگی بھر کے سارے گناہ دھونے کی ضمانت پنڈے دیتے ہیں.

سنسکرت زبان کا یہ مذہبی تبلیغ کوئی پنڈا نہیں، بھارت کی وزیر خارجہ کر رہی تھیں. وہ بھی خالص سنسکرت میں.

311370-sushma-swaraj-rnaجیسے دکان پر جائیے تو گھی کے آگے خالص نہ لگا ہونے پر آپ اسے خریدیں نہیں. ویسے ہی سنسکرت جب کوئی بول رہا ہو تو خالص ہونی چاہئے، ورنہ بولنے والے کا فرض نہیں. وہ بھی غیر ملکی زمین پر.
تو وزیر خارجہ نے پاک سنسکرت میں سنسکرت کا گگان کیا. سنسکرت کیسی ہے؟
گنگا کی طرح، جو گومكھ میں تو مقدس ہوتی ہی ہے، وہاں سے گنگا سمندر تک یہ مقدس ہی بنی رہتی ہے. راستے میں ملنے والی ہر دریا-سوتے کو یہ مقدس کرتی چلتی ہے. جو گنگا کے رابطے میں آیا، گنگا ہی ہو جاتا ہے.

باقی بات چھوڑ دیں، اگر گنگا مقدس ہی بنی رہتی ہے، تو اب بنارس میں جس دریا کو پاک کرنے کا مقدس مہم چلائی جا رہی ہے، اس کا نام کیا ہے؟

‘جیسے گنگا کے رابطے میں جو آیا وہ مقدس ہو جاتا ہے، ویسے ہی سنسکرت جسے چھو دیتی ہے، وہ پاون ہو جاتا ہے.’ ‘

وزیر خارجہ کے مطابق، گلوبل وارمنگ، اپبھوكتاواد، تہذیبوں کی جدوجہد، غربت اور دہشت گردی: سب کے لئے سنسکرت میں حل موجود ہے. یہ بات نہ تو یونان کو سوجھی اور نہ یورپی یونین کو، ورنہ سنسکرت پڑھ کر وہ اب اپنا اقتصادی بحران سلجھا چکے ہوتے!

اور ‘اسلامی اسٹیٹ’ کے خلاف جنگ میں فتح کی حکمت عملی بھی سنسکرت نصوص سے سیکھ لی گئی ہوتی.

سنسکرت زبان ہے یا علاج یا اوجھاجي اور فقیر صاحب کا گنڈا تاویز ؟ اگر آپ وزیر خارجہ سشما سوراج کا بیان پڑھیں، جو انہوں نے عالمی سنسکرت سمملن کے افتتاح کے موقع پر بینکاک میں دیا ہے، تو آپ ایسا ہی لگے گا.

سنسکرت اور طہارت

سنسکرت کی بات شروع ہوتے ہی اسے دیوی مان کر اس کی پوجا وندنا شروع ہو جاتی ہے. آپ سنسکرت کی بات کریں تو طہارت، طہارت کا جاپ شروع ہو جاتا ہے.
کسی زبان کو مار ڈالنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے اسے خالص برقرار رکھنے پر زور. جو زبان روز مرہ کی زندگی کے کیچڑ-كادو، دھول مٹی، پسینے سے بھیگی نہیں ہوتی، وہ پھل پھول نہیں سکتی.

زبان کے ساتھ پاکیزگی نہیں دوش لفظ سب سے زیادہ استعمال ہونا چاہئے.
سنسکرت کے دشمن ہیں اس ہندو پرست. اس سب سے بڑے دشمن تھے وہ برہمن جنہوں نے بڑی اباديو کو سنسکرت کے رابطے میں آنے کے نااہل قرار دیا.
یہ سوال آسان ہی اٹھنا چاہئے کہ کیوں ایک وقت تک ایک ہی ذات کے لوگوں کا سنسکرت پر قبضہ رہا!

وہ تو بھلا ہو سیکولرازم کا اور ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کا، ورنہ نہ مسلمان اور نہ درج فہرست ذات-قبیلے کے لوگ کبھی سنسکرت پڑھنے کا موقع پاتے، اسے پڑھانے کے لئے ان کی تقرری کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے.
آپ صرف مراٹھی میں لکھی عالم کمد پواڑے کی سوانح عمری کے اس حصہ کو پڑھ لیجئے جس میں وہ سنسکرت پڑھنے کے اپنے مشکل جدوجہد کی داستان کہتی ہیں، جو انہیں ایک دلت عورت ہونے کی وجہ سے کرنا پڑا.

لسانی لچک
سنسکرت کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ اسے ایک ساتھ کلاسیکی موسیقی (كلاسكل) اور جدید ماننے کی اپیل کی جاتی ہے. سوال اس نہیں کہ وہ کلاسیکی موسیقی یا جدید مانی جائے یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ وہ زندہ اور متحرک زبان ہے یا نہیں!
اس کی ایک جانچ اس سے ہوتی ہے کہ وہ کتنے ذرائع سے الفاظ اور زبانی استعمال کر قبول کرتی ہے.
کیا سنسکرت ترجمہ کی زبان ہے؟ کیا اس میں انگریزی-فرانسیسی، تامل، اردو، ستھالي، ہو، بوڈو، اگامي زبانوں میں سے ترجمہ ہو رہے ہیں؟
یا وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ اس کے مذہبی کتابوں کا ترجمہ ان میں ہو؟ اگر لین دین نہیں ہے، اگر اس میں صرف دینے کا گھمنڈ ہے، لینے کی عاجزی نہیں تو وہ معاصر زبان-دنیا کی شہری نہیں.
سنسکرت کی نصابی کتاب تعمیر سے وابستہ ایک عالم ایک واقعہ کا ذکر کرتی ہیں. ایک بار ایک متن میں ایک پنجابی لڑکی کا نام استعمال کرنے کا مسئلہ سامنے آیا.
پرمندر اور پرمندرا
نام تھا ‘پرمدر’. سنسکرت کے پنڈتوں نے کہا کہ سنسکرت میں اکراںت ستريلنگ لفظ نہیں ہے تو اس کا طور کیسے چلے گا.
کہا گیا کہ پرمدر کو سنسکرت کی کتاب میں آنے کے لئے ‘پرمندرا’ ہونا ہوگا تاکہ اکراںت ستريلنگ لفظ ‘لتا’ کی طرح اس کا شبدروپ چلایا جا سکے.
سوال ہے کہ کیا پرمندر خود کو بدلے یا سنسکرت اپنی ضد چھوڑ کر پرمندر کو صحیح سہی پکارے؟
دوسرا مسلسل ہے سنسکرت کو ہر زبان کی ماں ماننے کا. اسے دنیا کی قدیم زبان ماننے کا. زبان-سائنس کا ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ سنسکرت صرف ایک زبان خاندان کی رکن ہے اور دوسرے کی زبان خاندانوں کی پیدائش سے نہیں ہوا ہے. وہ قدیم بھی نہیں.
لیکن ان دونوں باتوں کو مان بھی لیں تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

ثقافتی قوم پرستی

سنسکرت میں ایک وقت کے بعد علمی تعمیر کا کام رک گیا اور صرف اس لئے کہ اسے استعمال کی جگہ پوجا کی چیز بنا دیا گیا.
ہندوستان میں ایک خاص قسم کے ثقافتی قوم پرستی کی سیاست نے اسے گھیر لیا اور سنسکرت کے علماء کرام نے بھی اس کی مزاحمت نہیں کیا.
آپ جب رادھاوللبھ ترپاٹھی یا كملش دتت ترپاٹھی جیسے علماء کرام کو بھی سنسکرت کے فورمز پر ننگے پاؤں دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ وہ اپنی جدید شعور کے باوجود سنسکرت کو ثقافتی سیاست سے آزاد کرنے سے کچھ ڈرتے ہیں. اس ثقافتی سیاست کا مطلب ہے، سنسکرت علم کی نہیں بلکہ اقدار کی کیریئر ہے. اور وہ قیمت ایک مذہب خاص سے منسلک ہیں.
سنسکرت کو ہندوستان کی دوسری زبانوں کی برابری پرآکر زبان کی طرح منظم کرنا ہوگا، اپنی فوقیت کا دم چھوڑ کر.
یہ سوال سنسکرت کے لوگوں کو بھی اٹھانا ہوگا کہ کیوں ہندوستان کے وزارت خارجہ میں سنسکرت کا ایک خاص افسرہو گا!

دیو زبان یا عوامی زبان

باقی بھارتی زبانیں کو اس کی اہمیت کا حق نہیں؟
یہ بھی کہ دنیا سنسکرت سمملن میں سنسکرت بھارتی کے لوگوں کی زیدہ تعداد کیوں تھی ؟
جانی ہوئی بات ہے کہ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ایک پلیٹ فارم ہے. پھر اسے ہندوستان کے شہریوں کے ٹیکس سے کیوں ترجیح دی جا رہی ہے؟
سنسكرت واديو سے سنسکرت کب آزاد ہوگی؟ کیا سنسکرت عالم- کو اس  کی جرات کرے گا؟
کیا وہ کہہ سکیں گے کہ سنسکرت کو اتنی مالا نہ پهناو یا بند کمرے میں اتنا دھوپ-اگربتتي نہ دکھائیں کہ اس دم گھٹ جائے.
سنسکرت کی کھڑکیاں، دروازے کھولو، اسے گلی چوراہے پر گھومنے دو، اسے آج کے سکھ-دکھ، جدوجہد، جیت ہار کی کہانی کہنے دو، اس کے گیت گانے، نغمے دو.
سنسکرت کو تعریف کے زہر سے نہ مارو. اس الوکک دنیا سے اتار کر حقیقت کی کڑی زمین پر پاؤں رکھنے دو، لہو-لهان ہونے دو.
تبھی وہ نئی ہو سکے گی، دوسری زبانوں میں سے بول بتيا سکے گی. ابھی جو اس آواز کو بلاک ہو گیا ہے، کھل سکے گا.
یعنی وہ دیو زبان بنی رہنا چاہے گی یا عوامی زبان بنے گی؟