نئی دہلی، 22 اگست 2024
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام اہم مسلم تنظیمیں و مسالک لوک سبھا میں پیش کردہ نئے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف املاک کو تہس نہس اور ہڑپ کرنے کی ایک گھناؤنی سازش قرار دیتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آئے اور بل کو واپس لےلے


مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات، کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔ سینٹر ل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونگیں ہی۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہونگے- یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صر ف قائم کرسکتےہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں- یہان یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں ھندوؤن کے اوقاف کے انتظام و انصرام کے لئے یہ لازمی ہے کہ اس کے ارکان و ذمہ داران ھندو عقیدہ پر عمل پیرا ہو- اسی طرح گرودوارہ پربندھک کمیٹی کےممبرس بھی لازماً سکھ طبقہ سے ہوں گے- اسی طرح پہلے وقف بورڈوں کے ممبران کا انتخاب ہوتا تھا، اب اسے نامزدگی ہوا کرے گی- اسی طرح مجوزہ بل سے وقف بورڈ کے سی ای او کے لئے مسلمانوں ہونے کی شرط ہٹادی گئی ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کرسکتی تھی جو کہ ڈپٹی سیکرٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹادی گئی ہے اور اب ڈپٹی سیکرٹری کی شرط کو ہٹاکر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سیکرٹری کی رینک سے کم نہ ہو- یہ ترمیمات واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ وں کے اختیارات کو کم کرتی ہیں اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے


مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے- اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کردیا گیا ہے- کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کردے-
اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ ہو تو اس کو طے کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کے ذمہ تھا جو وقف ٹربیونل کے ذریعہ اسے طے کراتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی مجوزہ بل میں کلکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا۔ اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔ مجوزہ بل نے کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو من مانے اختیارات دے دئے ہیں- آج جب کہ کلکٹر کے حکم سے مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں تو پھر وقف املاک کے سلسلے میں ان کے رویہ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے-


مجوزہ بل میں وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن 40 کو من مانے ڈھنگ سے پوری طرح حذف کردیا گیا ہے- یہ سیکشن وقف بورڈ کا دائرہ، حدود اور اختیار طے کرتی ہے، جس کے تحت وقف
رجسٹریشن، وقف املاک کی حیثیت وغیرہ طے کی جاتی ہے- اب یہ تمام اختیارات کلکٹر کے حوالے کردئے گئے ہیں ۔ اسی طرح سروے کمشنر کو نامزد کرنے کے وقف بورڈ کے اختیار کو بھی ختم کردیا گیا ہے- مجوزہ بل میں یہ ذمہ داری بھی کلکٹر کے حوالے کرد ی گئی ہے۔


مجوزہ بل سے بحیثیت استعمال وقف کو ہٹادیا گیا ہے- اسلامی قانون اوقاف میں اس کا ایک اہم مقام ہے- جسے وقف ایکٹ 1995 میں بھی اہمیت دی گئی ہے- جس میں کہا گیا ہے کہ لمبے عرصہ تک بحیثیت وقف استعمال کی جگہ ( مسجد، درگاہ یا قبرستان ) بھی وقف تسلیم کی جائے گی، چاہے وہ وقف کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہ ہو- اسے ہٹانا نہ صرف اصول وقف کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ یہ فرقہ پرست عناصر کو وقف املاک پر قبضہ کرنے کا ایک ہتھیار مل جائے گا- اس طرح ایسی مساجد، مدرسے، درگاہیں اور قبرستان چاہے وہ صدیوں سے استعمال میں رہے ہوں لیکن ملک کے ریوینو ریکار ڈ میں اگر ان کا اندراج نہ ہو تو ان پر مقدمات ، تنازعات اور غیر قانونی قبضوں کا راستہ صاف ہوجائے گا-


مجوزہ بل میں واقف کے لئے ایک مضحکہ خیز شرط لگائی گئی ہے کہ وہ کم از کم گزشتہ پانچ برس سے اسلام پر عمل کررہا ہو- یہ تجویز بنیادی اخلاقیات اور دستور ھند کی روح کے بھی خلاف ہے- جب کہ موجودہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کی جانب سے کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو مستقل طور پر نذر کردینا کسی ایسے مقصد کے لئے جو مسلم قانون کے تحت دینی یا خیراتی عمل تسلیم کیا گیا ہو- پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کون شخص اسلام پرعمل پیرا ہے یا نہیں اس کی سند کون دے گا؟۔


جہا ن ایک طرف مجوزہ بل میں غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی تجویز ہے ،وہیں یہ بل غیر مسلموں کے ذریعہ اپنی کسی جائیداد کو وقف کرنے پر پابندی لگاتا ہے-
یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں جو انہوں نے مذہبی اور خیراتی کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ کو پیش کی ہیں، وقف بورڈ اور متولیوں کا رول انہیں صرف ریگولیٹ کرنے کا ہے-


آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ، جمیعت علما ھند، جماعت اسلامی ہند، جمیعت اہل حدیث اور تمام دینی و ملی تنظیمیں اس بل کو جو وقف املاک کو تباہ وبرباد کرنے اور ان پر قبضوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے لایا گیا ہے کلیتا مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسے فوری طور پر واپس لے- ہم این ڈی اے میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں اور حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو ہرگز ہرگز بھی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں- ہم یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر وقف املاک کو تباہ کرنے والا اور وقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموار کرنے والا یہ بل اگر پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو بورڈ مسلمانوں، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گا –

پریس کو خطاب کرنے والے
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، صدر آل ان ڈیا مسلم پرسنل لا بور ڈ
مولانا ارشد مدنی، صدر جمیعت علما ہند و نائب صدر بورڈ
جناب سید سعادت اللہ حسینی،امیر جماعت اسلامی ہند و نائب صدر
مولانااصغر امام مہدی سلفی، امیر مرکزی جمیعت اہل حدیث و نائب صدر
مولانا محمدفضل الرحیم مجددی، جنرل سیکرٹری مسلم پرسنل لا بورڈ
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، ترجمان مسلم پرسنل لا بورڈ