نریندر مودی


ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے اکثر چار چیزوں پر بحث ہوتی ہے۔ ٹیکس ریٹ میں کمی، تجارت کرنے میں آسانی اور اس میں سدھار، لیبر کی اصلاحات اور عدم سرمایہ کاری۔ان سبھی پہلوو¿ں پر سرکار نے جو قدم اٹھائے ہیں وہ بہتر مستقبل کی امید جگانے والے ہیں۔اسی سال پرسنل ٹیکس کو لے کر ہماری حکومت نے بڑا فیصلہ کیا اور پانچ لاکھ روپے تک کی ا?مدنی کو ٹیکس سے آزاد کردیا۔اس سے ہرمہینے 40 ہزارروپے سے زائد تک کی آمدنی والے ایک بہت بڑے طبقے کو سیدھا فائدہ ہوا ہے، جبکہ بچت کے لحاظ سے 70 ہزار روپے تک ماہانہ آمدنی والے کو بھی بہت بڑی راحت ملی ہے۔یہاں سے ہورہی بچت یقینی طور سے ان خاندانوں کے بہتر مستقبل میں مدد کرنے والی ہے۔اسی طرح کارپوریٹ ٹیکس میں کی گئی تاریخی کٹوتی سے بھارت دنیا کی سب سے کم ٹیکس شرحوں والی معیشت تو بنی ہی ہے، سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لئے بھی ہماری حالت مستحکم ہوئی ہے۔


ٹیکس نظام کو سدھارنے کے لئے تاجروں اور شہریوں کے ساتھ پریشانی کے ہر امکان کو ختم کرنے کے لئے حال میں ای-اسسٹمنٹ اسکیم لاگو کی گئی ہے۔اب کس افسر کے پاس آپ کی فائل جائے گی یہ نہ آپ کو پتہ ہوگا اور نہ افسر کو پتہ چلے گا کہ یہ فائل کس کی ہے۔اتنا ہی نہیں، کیونکہ افسر کو یہ پتہ ہی نہیں ہو گا کہ اسے کس کا اسسٹمنٹ کرنا ہے، لہذا ٹرانسفر پوسٹنگ کو لے کر جو حساب کتاب ہوتا تھا، وہ بھی بند ہو جائے گا۔یعنی مجموعی طور ہوگا یہ کہ ٹیکس اسسٹمنٹ کے درمیان جو کھیل ہوتے تھے، ان کھیلوں کے بہانے عام لوگوں کو جو دقتیں آتی تھیں، وہ اب ختم ہو جائے گی۔


ایز آف ڈوئنگ بزنس میں ہم اس سال بھی ٹاپ 10 بیسٹ پرفارمرس میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں ہم نے 79 رینک کی بہتری حاصل کی ہے۔ مجھے برابر یاد ہے پچھلی بار جب ایز آف ڈوئنگ بزنس کے رینک آئے تو ورلڈ بینک کے چیئرمین نے مجھے خصوصی طور پر فون کیا کہ رینکنگ تو آتے ہیں میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ اتنا بڑا ملک وہ بھی ترقی پذیر ملک اور وہ اتنی بڑی اصلاح کرے اور مسلسل کرتا رہے ورلڈ بینک کے پاس ایسی کوئی تاریخ دستیاب نہیں ہے جو پہلی بار انڈیا نے کیاہے انہوں فون کرکے بتایا۔جہاں تک لیبر ریفارم کی بات ہے تو دہائیوں پرانے درجنوں قوانین کو 4 قوانین میں کوڈی فائی کیا جا رہا ہے، جس سے ملازم اورمالک دونوں کو بہت فائدہ ہونے والا ہے۔سرمایہ نکاسی کی بات کروں تو حال میں لئے گئے فیصلوں سے واضح ہے کہ اس سمت میں بھی ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

The Prime Minister, Narendra Modi delivering the inaugural address at the Hindustan Times Leadership Summit 2019, in New Delhi on December 06, 2019.


تین چار دہائی قبل جب ملک میں بینکوں کو قومی دھارے میں لایا گیا تو خوب ڈھول نگاڑے بجواے گئے تھے کہ بہت بڑای اصلاح ہوئی ہے۔پھر وقت کے ساتھ یہ پتہ چلا ہے کہ بہت سے بینکوں کے انتظام میں بھی اپنی خامیاں ہیں۔۔ہم نے بینکوں کا مرجر کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے ری کیپیٹلائزیشن کے لئے ڈھائی لاکھ کروڑ روپے کی رقم بھی دی ہے۔دیوالیہ اور ادائے قرض کی معذوری کوڈ۔ آئی بی سی نے قریب قریب 3 لاکھ کروڑ روپے کی واپسی یقینی بنایا ہے۔اس طرح کی بہت سی اصلاحات کے بعد، بہت سے بڑے فیصلوں کے بعد آج ملک کا بینکنگ سیکٹر پہلے سے کافی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔میں آج پھر ، ملک کے ہر بینک ملازم کو یہ بھروسہ دینا چاہتا ہوں کہ پرانے حالات سے ہم باہر نکل آئے ہیں۔ اب آپ کے حقیقی کاروباری فیصلوں پر سوال نہیں اٹھائے جائیں گے۔کسی بھی طرح کی کارروائی سے پہلے کسی کام کرنے والے فائننس اور بینک ایکسپرٹ سے جانچ کرانے سے منسلک ہدایات بھی جلد ہی جاری کی جا رہی ہیں۔ آج جو بینکنگ سیکٹر پر دباو¿ ہے، تناو¿ ہے، اس سے نجات دلانا یہ بھی تو حکومت کا کام ہے اور ہم کریں گے، اگر بینک میں بیٹھا ہوا شخص فیصلے لینے میں ڈرتا ہے تو اس کو فکر رہتی ہے ،تو وہ فیصلہ نہیں کر پائے گا اور حکومت اس کو بے بس نہیں چھوڑ سکتی اس کی حفاظت کرنے کے لئے حکومت پوری ذمہ داری لیتی ہے اور تبھی تو ملک آگے بڑھتا ہے۔ اور میں ایسا ہوں میں ذمہ داریوں سے بھاگنے والا انسان نہیں ہوں۔ میں ذمہ داریاں خود لیتا ہوں۔


بلیک منی کے اندھا دھند بہاو¿ نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی کیا حالت تھی، آپ سب کو معلوم ہے۔ آج بھی سینکڑوں،ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو برسوں سے ای ایم آئی دے رہے ہیں، کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں اور اپنے خوابوں کے گھر کا انتظار کر رہے ہیں۔ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو اس صورت حال سے نکالنے کے لئے، ادھورے اور اٹکے ہوئے پروجیکٹس کو پورا کرنے کے لئے حکومت نے حال ہی میں ایک اسپیشل ونڈو بھی بنائی ہے۔ اس کے تحت 25 ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ متوسط طبقے کے ایک بڑے حصے کا، اپنے گھر کا خواب پورا ہوگا۔اس کے علاوہ حکومت اپنی اسکیموں کے تحت جو 2 کروڑ گھر بنوانے جا رہی ہے، جی ایس ٹی میں رعایت، سود میں چھوٹ جیسے فیصلوں سے بھی اس سیکٹر کو بہت مدد ملنے والی ہے۔

بہتر کل کے ہمارے خواب میں ایک چیز اور بہت اہم رہی ہے۔ یہ ہے بھارت میں ورلڈ کلاس انفرااسٹرکچر۔ آنے والے چند سالوں میں اس خواب کو پورا کرنے کے لئے حکومت 100 لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی، ہماری کوشش انفرااسٹرکچر کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کو بھی بڑھانے پر ہے۔ حکومت اس بات بھی نظر رکھے ہوئے ہے کہ انفرااسٹرکچر اور انڈسٹری کو کریڈٹ فلو میں کسی طرح کی دقت نہ آئے۔آج حکومت ریلوے کنیکٹی وٹی پر، روڈ کنیکٹی وٹی پر، ایئر کنیکٹی وٹی پر جتنی سرمایہ کاری کر رہی ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں کی۔اس کے ماحولیات پر، ایز آف لیونگ پر اثرات سے آپ واقف ہیں۔لیکن ایک اور سیکٹر پر کنکٹی وٹی بہتر بنانے کا بہت بڑا اثر پڑا ہے۔یہ سیکٹر ہے- ٹورازم۔
حکومت کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھارت ورلڈ اکونومک فورم کے ٹریول اور ٹوررزمسابقتی عدد اشاریہ میں 34 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ سال 2009 سے 2013 کے درمیان برسوں میں ہم 62 سے 65 ویں مقام کے درمیان تھے۔اور میں آپ کو یہ بھی یاد دلادوں، ٹورزم بڑھنے کا سب سے زیادہ غریب کو فائدہ ہوتا ہے، غریب سے غریب کو روزگار ملتا ہے کم سے کم سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ روزگار ملتا ہے۔ جب ٹوررزم بڑھتا ہے، غیر ملکی سیاح آتے ہیں، تو یہاں خرچ بھی کرتے ہیں۔ سال 2014 میں بھارت کے لوگوں کو سیاحتی سیکٹر سے غیر ملکی کرنسی میں 1 لاکھ 20 ہزار کروڑ روپے کی کمائی ہوئی تھی۔ وہیں گزشتہ سال یہ غیر ملکی کرنسی بڑھ کر قریب قریب 2 لاکھ کروڑ روپے پہنچ گئی ہے۔آخر یہ کمائی کس کی ہوئی۔ بھارت کی ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی، سیاح گائڈز کی، ٹیکسی والوں کی، چھوٹے چھوٹے ڈھابے والوں کی۔ دست کاری کی اشیا فروخت کرنے والوں کی۔ملک کے بہتر مستقبل کے لئے، آج وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت حکمرانی کے بنیادی شعبوں میں کام کرے۔لوگوں کی زندگیوں میں حکومت کا دخل جتنا کم ہوگا، اور گڈ گورننس جتنی زیادہ ہوگی، اتنی ہی تیزی سے ملک آگے بڑھے گا۔ یہ میرا ماننا ہے کہ غریب کے لئے حکومت کی کمی نہیں ہونی چاہئے اور شہری کی زندگی میں حکومت کا دباو¿ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت جتنی زیادہ لوگوں کی زندگی سے نکل جائے ،اتنا ہی اچھا رہے گا۔اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ حکومت خود اپنے انسانی وسائل پر بھی توجہ دے۔ہم نے 21 ویں صدی میں ایک ایسے گورننس ماڈل کے ساتھ انٹری لی جو 19 ویں اور 20 ویں صدی کی سوچ اور اپروچ سے چلتا تھا۔اس سسٹم کے اہم ٹولز یعنی ہمارے افسر، ہمارے ملازم پرانی خیالات، پرانے طور طریقوں کے عادی ہو چکے تھے اور وہی وراثت وہ آگے پاس کرتے تھے۔19 ویں، 20 ویں صدی کی ذہنیت والے گورننس ماڈل کے ساتھ 21 ویں صدی کے ہندوستان کی خواہشات کو پورا کرنا بہت مشکل تھا۔لہذا گذشتہ 5 سالوں میں ہم نے اس نظام کو اور حکومت کے انسانی وسائل کی کایا پلٹ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی۔


ایک اور پہل ہم نے کی ہے، سول سرونٹس کو لے کر، تقرری کے شروعاتی دنوں میں ہی انہیں اس بات کا تجربہ دیا جارہا ہے کہ پالیسی سطح پر کیسے کام کیا جاتا ہے، فلیگ شپ اسکیم کو کیسے فالو کیا جاتا ہے۔پہلے انہیں ایسا تجربہ نہیں ملتا تھا۔ کئی آئی اے ایس – آئی پی ایس افسر ایسے ہیں کہ وہ جاب ملنے کے بعد اپنے اسٹیٹ کیڈر میں چلے گئے ، ان کو کبھی دہلی آنے کا موقع نہیں ملا، اتنا بڑا ملک کیسے کام کرتا ہے، کبھی خوش قسمتی ہی نہیں ملی اور وہ ریٹائر بھی ہوگئے۔ ہم نے شروع کے دور میں ہی جب وہ میسوری سے نکلتے ہیں، تو تین مہینے بھارت سرکار کے مختلف نظاموں میں جوڑنا شروع کیا۔ تاکہ وہ یہاں ایک سے ویڑن لے کر جائیںَ اس سال ہم نے ایک اور شروعات کی ہے۔ اس بار ملک میں 20 سے زیادہ سول سروسز کے ٹرینی کا مشترکہ فاو¿نڈیشن پروگرام ہم نے کیا۔


ہم اب جوائنٹ فاو¿نڈیشن کورس کی سمت آگے بڑھ رہے ہیں۔ الگ الگ سروسز جیسے ریونیو ، فارسٹ ، ریلویز ، اکاو¿نٹ اینڈ آڈٹ ، ان کے افسروں کو ان دنوں ہم نے بہت ذمہ داری والے کام دیئے ہیں۔ اہم جوائنٹ سکریٹری سطح کی پوسٹ بھی دی ہے تاکہ پالیسی میکنگ میں سبھی سروسز کا انٹگریشن ہوسکے۔ اور ہاں،ان سب کے درمیان ہم نے 220 سے زیادہ سرکاری افسروں کو بدعنوانی کے الزام میں ، کام صحیح طریقے سے نہ کرپانے کے الزام میں ، پری مچیور ریٹائر منٹ بھی دیا ہے۔اب ڈیڈ لائن کو سرکاری نظام میں بھی سیکرو سینکٹ مانا جانے لگا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پورے ملک میں یہ نظام بن چکا ہے لیکن بہت سارے شعبوں میں اس بدلاو¿ کو آپ محسوس کرسکتے ہیں۔گورننس کے بنیادی ڈھانچے میں کیا جارہا ۔یہ اصلاح صرف پانچ یا دس برسوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ صرف ہماری سرکار تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا فائدہ آنے والی جنریشن کو ملنے والا ہے۔ہم صرف پانچ یا دس برسوں کے مدت کار کے لئے کام نہیں کررہے ہیں بلکہ بہتر کل (بیٹر ٹو مارو) ، نیو انڈیا ، پرماننٹ پرفارمنس اورینٹڈ نظام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ 130کروڑ ہندوستانیوں کے بہتر مستقبل کے لئے صحیح نیت، بہتر ٹیکنالوجی اور موثر نفاذ ، یہی ہمار روڈ میپ ہے۔


ہندستان ٹائمز لیڈر شپ سمٹ سے وزیراعظم نریندرمودی کے خطاب سے اقتباس