افتخار گیلانی
فروری کو ترکیہ کے جنوب مشرقی صوبوں اور شام میں آئے زلزلہ کے بعد تلاشی اور ریسکو کا کام اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے، مگر ایک بڑی آبادی کی بازآبادکار ی اور انکی متبادل رہائش گاہ کا انتظام کرنا اور پھر نئے شہر اور ان کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنا یقیناً ایک بہت بڑا چلینچ ثابت ہونے والا ہے۔ عددی لحاظ سے ترکیہ امریکہ کے بعد دنیا بھر میں بیرون ملک انسانی امداد پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔چاہئے بنگلہ دیش اور میانمار میں روہنگیا ہوں، افغان یا شامی پناہ گزیں ہوں یا جنوبی امریکہ یا افریقی ممالک کے آفت زدگان ہوں 2021میں انقرہ نے بیرون ملک انسانی امداد بہم پہنچانے کیلئے 5.5بلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔
اس کا ایک ادارہ ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈینیشن ایجنسی (ٹیکا) تو اسی کام کیلئے مختص ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی امور کی وزارت اور لاتعداد غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد و زکوٰۃاکھٹی کرکے ان کو دور دراز کے ممالک میں پہنچاتی ہیں۔ اگر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی نظروں سے دیکھا جائے، تو اس کا 0.86فیصد بیرون ملک انسانی امداد پر مختص کرکے، ترکیہ امریکہ سے کافی آگے ہے۔ اس کے قریب پھر صرف تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات ہی ہے، جو مجموعی قومی پیدوارا کا 0.21فی صد بیرون ملک انسانی ہمدردی اور امداد پر خرچ کرتا ہے۔ اب ستم ظریفی یہ ہے کہ سخاوت دریا دلی اور خود داری کیلئے مشہور یہ ملک ،جس کے پاس عرب دنیا کی طرح تیل کے چشمے بھی نہیں ہے، اس مصیبت کی گھڑی میں خودہی امداد کامستحق ہوگیا ہے۔
ان آفت زدہ علاقوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دور دور تک صرف ملبوں کے ڈھیر نظر آتے ہیںاور ان کے درمیان جزیروں کی طرح چند عمارتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر غریبوں کیلئے بنائے گئے مکانات ہیں، جو شدید زلزلوں کے جھٹکوں کو سہہ سکے ہیں۔ جبکہ اسکائی اسکریپرز، پر تعیش کثیر منزلہ عمارات ، ان میں سے کئی تو بس چند ماہ پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، اور ان کو بیچنے کیلئے کئی شہروں میں ہورڈنگس لگی ہوئی تھی، زمین بوس ہو چکے ہیں۔اسی طرح زلزلہ کے مرکز قہرمان مارش صوبہ کے پزارجک قصبہ سے بس 80کلومیٹر دور ایرزان قصبہ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا ہے۔ اس کے سبھی مکین مع مکانات صحیح و سلامت ہیں، جبکہ اس زلزے نے ترکیہ کے 11 صوبوں میں 98 ہزار مربع کلومیٹر اور شام کے پانچ صوبوں میں 60ہزار کلومیٹر رقبہ کو نشانہ بنایا ہے۔مگر آس پاس کی تباہی کو دیکھتے ہوئے، اس قصبہ کے باسی بھی دہشت میں ہیں، اور ابھی تک گھروں کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔آفٹر شاک آنے کا سلسلہ جاری ہے اور اتوار تک چار ہزا ر ایسے شاک آچکے تھے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 19ہزار کثیر منزلہ عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں اور مزید 30ہزار ناقابل رہائش ہو چکی ہیں۔ اس کے علاو ہ لاتعداد عمارتوں کو انتہائی مرمت کی ضرورت ہے۔ چونکہ 1980سے ہی ترکیہ میں قانونی طرف پر انفرادی مکانات یا بنگلے تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے، اسلئے کم و بیش پوری آبادی کثیر منزلہ عمارات میں ہی رہتی ہے۔ 1999میں ازمت اور استبول کے آس پاس آئے زلزلے، جس میں 17ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے، کے بعد بلڈنگ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کی گئی تھیں اور یہ لازم کردیا گیا تھا کہ زلزلہ کو سہنے والی عمارات ہی بنائی جائیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرق کے ان صوبوں کی مقامی بلدیہ نے ان قوانین کا سختی سے ساتھ اطلاق نہیں کیا ہے۔ مالاتیہ صوبہ میں ایک ایسی بلڈنگ گر گئی، جس کا پچھلے سال ہی افتتاح ہوا تھا۔
زلزلوں کے ماہر اور اسٹرکچر انجینئر مہدی زارا کے مطابق اکثر ہلاکتیں زلزلہ کے بجائے بلڈنگوں کے گرنے سے ہوئی ہیں اور اگر کوئی بلڈنگ شاک سے گر جاتی ہے، تو یہ تسلیم کیا جانا چاہئے کہ اس کی تعمیر میں کوئی نقص تھا۔ ان کے مطابق جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ بلڈنگوں کو شاک پروف بنایا جاسکتا ہے اور یہ تکنیک عمارت بنانے کیلئے استعمال کرنا تو ترکیہ میں لازمی ہے۔ اس کا بڑا ثبوت اسی علاقے میں غریب افراد کیلئے بنائی گئی عمارات ہیں، جو بالکل ایستادہ ہیں۔امریکی شہر کیلی فورنیا میں مقیم ایک جاپانی اسٹریکچر انجینئر کٹ میاموٹو ، جو ترکیہ آئے ہوئے ہیں بتا رہے تھے کہ لگتا ہے کہ بلڈنگ قوانین یا کوڈ کو سختی سے ان علاقوں میں لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ ایک اور بلڈنگ انجینئر امتیاز سولومن کا کہنا ہے کہ ایک بہتر ڈیزائن والی عمارت اس سے بھی زیادہ شدت کے زلزے برداشت کر سکتی ہے۔
کسی بھی بلڈنگ کو شاک پرو ف بنانے کیلئے اسکی بنیاد میں اسٹیل کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر استونوں کے کالم بھی اسٹیل سے ہی کھڑے کئے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے وقت لچک کی وجہ سے اسٹیل کالم جھٹکے کے بعد واپس اپنی پوزیشن میںآتے ہیں اور بلڈنگ محفوظ رہتی ہے۔انقرہ میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں چونکہ بلدیاتی ادارے اپوزیشن گڈ پارٹی اور کرد ایچ ڈی پی کے پاس ہیں، انہوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اور رئیل اسٹیٹ بوم دکھانے کیلئے بلڈنگ بنانے کی شرائط اور ان پر عملدامد کروانے میں نرمی برتی ہے۔ نائب صدر فواد اوکتہ کے مطابق ابھی تک 131ٹھیکہ داروں، انجینئرو ں اور معماروں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کے خلاف کیس درج کئے جائیں گے۔ وزارت انصاف نے تو باضابطہ تفتیش کیلئے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔
بھارت اور پاکستان کی حکومتوں خاص طور پر گنجان آباد شہروں دہلی اور لاہور کے حکام کو اس زلزلہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے ، کیونکہ ترکیہ کے شہروں کی طرح سرگودھا، لاہور اور دہلی کی پٹی زلزلہ کے لحاظ سے حساس زون میں شمار کی جاتی ہے۔ اس لئے ان علاقوں میں بلڈنگ کوڈ کو وضع کرنے اور اسکا سختی کے ساتھ اطلاق کرنے کی ضرورت ہے۔ ترکیہ میں ہر گھر کا انشورنس کرنا لازمی ہوتا ہے، اس کے بغیر بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن مل ہی نہیں سکتا ہے۔ چونکہ سبھی گھر انشورنس کے زمرے میں آتے ہیں، اسی لئے بیمہ کی قسطیں جیب پر بھاری نہیں پڑتی ہیں۔ ہر سال انشورنس کمپنیاں مکان مالکان سے 19.2بلین لیرا اکھٹا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے عائد زلزلہ ٹیکس میں بھی 88بلین لیرا حکومت کے خزانے میں جمع ہیں۔
ہر سال بلدیہ کے ضابطہ محکمہ کے افراد اجدید آلات لئے بلڈنگوں کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ انقرہ میں جس علاقے میں ، میں رہائش رکھتا ہوں پچھلے ایک سال کے دوران پانچ بلڈنگوں کو غیر محفوظ قرار دیکر مسمار کردیا گیا ۔ ضابط محکمہ مکینوں کو نوٹس دیتا ہے اور پھر ان کو ایک سال تک متبادل رہائش اور سامان کے نقل و حمل کیلئے خرچہ دیکر مسمار شدہ جگہ پر نئی بلڈنگ بغیر کسی خرچہ کے تعمیر کراتا ہے۔ اس کا خرچہ مکان مالک کے بجائے انشورنس کمپنی سے لیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشاء میں بلدیاتی اداروں کو اس طرح کے وسیع اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
دہلی شہر کا تو اور بھی برا حال ہے۔ اس کے والی ہی اتنے ہیں، جتنے سر کے بال۔ صوبائی حکومت ، مرکزی حکومت اور پھر مونسپل کارپوریشن، اداروں کا ایک طرح سے جال ہے اور وہ ایک دوسرے سے ہی برسر پیکار رہتے ہیں۔ ترکیہ کا زلزلہ دہلی اور لاہور کے حکام کو بتاتا ہے کہ اگرا ب بھی نہ جاگے اور اقدامات نہ اٹھائے، تو خدا نہ خواستہ وہ ایک بڑی تباہی کے شکار ہو سکتے ہیں۔ کم از کم عمارات کے انشورنس کو ہی لازمی قراد دیا جائے اور انشورنس کمپنیوں پر ذمہ داری عائد کی جائے کہ عمارات شاک پروف تعمیر ہوں اور بیس سال بعد ان عمارات کی مرمت انشورنس کے پیسے سے کرائی جائے، کیونکہ مکان خریدنا ایک بڑی سرمایہ کاری ہوتی ہے او رعام مڈل کلاس شخص زندگی بھر کی کمائی اس میں لگا دیتا ہے۔