اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا مخالف دن کے موقع پر پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی قراد منظور۔ تاہم، ہندوستان نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ اس موقع پر ہندوستانی سفیر نے دیگر مذاہب کے ساتھ ہورہے امتیازی سلوک کی شمولیت کا بھی مطالبہ کیا نیز پاکستان کی جانب سے ہندوستان پر لگائے گئے الزاما ت کا مدلل جواب دیا۔


جنرل اسمبلی میں ’’اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات‘‘ پر ایک قرارداد کی منظوری کے دوران اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ، روچیرا کمبوج نے اسلامو فوبیا کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے قیام کی قرارداد کے دوران ہندوستان کے خدشات کا اظہار کیا۔
ہندوستان کو تکثیریت کا قابل فخر ماہر قرار دیتے ہوئے سفیر کمبوج نے کہا کہ جہاں اسلامو فوبیا ایک اہم مسئلہ ہے، دوسرے مذاہب کے خلاف امتیازی سلوک کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت کے خلاف امتیازی سلوک کی مثالوں کا حوالہ دیا، مندروں، خانقاہوں اور گردواروں پر حملوں کو غیر ابراہیمی مذاہب کے خلاف مذہبی فوبیا کی مثالوں کے طور پر نشان زدکیا۔ کمبوج نے کہا کہ مختلف عقائد کے خلاف مذہبی فوبیا کے پھیلاؤ کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے اور صرف اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کرنے سے خبردار کیا۔

انہوں نے دلیل دی کہ صرف اس مقصد کیلئے وسائل مختص کرنے سے اخراج اور عدم مساوات کے احساس کو تقویت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے ایک جامع نقطہ نظر کی وکالت کی جو تمام مذاہب کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
ہندوستانی سفیر نے پاکستان پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ایک ٹوٹا ہوا ریکارڈ قرار دیا جو جمود کا شکار ہے جبکہ دنیا ترقی کرکے آگے بڑھ چکی ہے۔ انہوں نے پاکستانی سفیر کے رام مندر کی تعمیر اور شہریت ترمیمی قانون کا حوالہ دینے کے جواب میں کہا کہ میرے ملک سے متعلق معاملات پر اس وفد کے محدود اور گمراہ کن نقطہ نظر کا مشاہدہ کرنا افسوسناک ہے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کو بھی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جب ایوان کسی ایسے معاملے پر غور کرتاہے تو اسے دانشمندی، گہرائی اور عالمی نظر کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے نمائندے کے طور پر پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کا مقصد دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش امتیازی سلوک کو دور کرنا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کیلئے جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کو جس کے حق میں ۱۱۵؍ ممالک نے ووٹ دیامنظور کیا حالانکہ کسی نے مخالفت نہیں کی لیکن اس دوران ۴۴؍ ممالک غیر حاضر رہے جن میں ہندوستان، برازیل، فرانس، جرمنی، اٹلی، یوکرین اور برطانیہ شامل ہیں۔