اشرف غنی بہت جلد وطن واپس لوٹنے کی کوشش کریں گے

WEB DESK
افغانستان میں قومی پرچم کی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے مظاہرے اب جلال آباد کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے ہیں۔ طالبان نے قومی پرچم کی جگہ اپنا جھنڈا تبدیل کر دیا تھا جس کے خلاف لوگوں نے سب سے پہلے جلال آباد میں مظاہرے شروع کیے تھے جو دیکھتے دیکھتے ملک کے دیگر حصوں تک پھیل گئے۔

اطلاعات کے مطابق جلال آباد کی چوک پر مظاہرین نے طالبان کے بجائے قومی پرچم نصب کرنے کی کوشش کی جس کے دوران فائرنگ ہوئی۔ اس میں کم سے کم تن افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

حکومت سازی کی کوششیں تیز
طالبان کی پوری قیادت اس وقت کابل میں ہے اور پر امن اقتدار کی منتقلی کی کوششیں جاری ہیں تاہم ابھی تک حتمی طور پر یہ فیصلہ نہیں ہو پا یا ہے کہ آیا نئی حکومت کس طرز یا شکل کی ہو گی۔ بعض میڈیا کی خبروں کے مطابق نئی انتظامیہ شوریٰ کونسل پر مبنی ہو سکتی ہے تاہم ابھی تک یہ سب قیاس آرائی ہے۔

بدھ کے روز اس سلسلے میں طالبان رہنماؤں نے سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی تھی جس میں اشرف غنی حکومت میں شامل اہم رہنما عبداللہ عبداللہ بھی موجود تھے۔ طالبان نے اس ملاقات کی تصدیق کی تاہم اس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔

خبر رساں ادارے نے ایک سینیئر طالبان رہنما کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نئی حکومت شوریٰ کونسل کی شکل میں ہو سکتی ہے جس کے سربراہ طالبان رہنما ہیبت اللہ اخون زادہ ہوں گے۔ وحید اللہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ نئی حکومت جمہوری نہیں ہو گی، ”یہ شرعی قوانین پر مبنی ہو گی بس۔”

افغان صدراشرف غنی کا کہنا ہے کہ انہوں نے سکیورٹی حکام کے مشورے پر ملک چھوڑا تھا اور جتنی جلدی ممکن ہوگا، وطن واپس لوٹیں گے۔ ادھر امریکا کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر 31 اگست کے بعد بھی امریکی فورسز کابل میں رک سکتے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے ملک چھوڑنے کے بعد پہلی بار 18 اگست کی رات کو جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انہوں نے اس لیے ملک کو چھوڑا تاکہ وطن کو خونریزی سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ وہ بہت سارا پیسہ لے کر فرار ہو گئے اور کہا کہ وہ بہت جلد وطن واپس لوٹنے کی کوشش کریں گے۔

متحدہ عرب امارت سے فیس بک پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میں اشرف غنی نے کہا کہ حکومتی ایجنسیوں کے مشورے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور یہ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ انہیں چپل اتار کر جوتے پہننے کا بھی وقت بھی نہیں مل پا یا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے نکلتے ہی طالبان صدارتی محل میں داخل ہو گئے تھے اور انہیں تلاش کر رہے تھے۔

افغان صدر اشرف غنی جس انداز سے کابل سے چلے گئے اس پر ہر جانب سے شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امارات نے انسانی بنیادوں پر اشرف غنی کا خیر مقدم کیا ہے۔

ان کے اس بیان کے بعد ہی اشرف غنی کے جانے کے بعد پہلی بار اس بات کا صحیح علم ہوا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ اس سے قبل ان کے تاجکستان میں پناہ لینے کی باتیں ہو رہی تھیں۔

امریکی فورسز اگست کے بعد بھی رک سکتے ہیں
امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر افغانستان سے فوجی انخلا کے اپنے فیصلے کا پر زور دفاع کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک تمام امریکی شہریوں کا افغانستان سے انخلا نہیں ہو جاتا اس وقت تک مکمل انخلا نہیں ہو گا اور اس کے لیے اگر ضرورت پڑی تو 31 اگست کے بعد بھی امریکی فورسز افغانستان میں رک سکتے ہیں۔

اے بی سی نیوز ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اس ماہ کے اواخر تک فوج امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکال لے گی تاہم اگر یہ مشن مکمل نہ ہو سکا تو پھر اس کے بعد بھی امریکی فوج کو رکنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا، ”امریکیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اسے 31 اگست سے پہلے مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر پھر بھی کوئی امریکی شہری رہ جاتا ہے تو ہم ان سب کے انخلا تک وہاں رکیں گے۔” تاہم صدر جو بائیڈن نے ان افغانیوں کے بارے میں یہ وعدہ نہیں کیا جو امریکی فوج کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا نے 31 اگست تک مکمل انخلا کی بات کہی تھی۔

انخلا کی کوششیں جاری
جرمنی، امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے اب بھی بہت سے شہری افغانستان میں پھنسے ہیں جنہیں وہاں سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بدھ کے روز تقریبا ًپانچ ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا گیا تھا۔

اس دوران اس طرح کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ چیک پوسٹوں پر طالبان کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بیرونی شہریوں کو تو ایئر پورٹ کی طرف جانے کی اجازت آسانی سے دیتے ہیں تاہم افغان شہری جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں انہیں روکا جا رہا ہے۔