Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz

”اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی، یہ گنگا جمنی تہذیب کی زبان ہے“

سہیل انجم

دنیا کی کوئی بھی زبان محض زبان نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مکمل تہذیب بھی ہوتی ہے۔ وہ اپنے بولنے والوں کی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کو اس کی ساخت، رسم الحظ یا بولنے والوں کے حجم کے پیش نظر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ زبانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ پھوٹ ڈالنے کے بجائے لوگوں کو جوڑتی ہیں، باہمی رابطے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کسی بھی زبان کو اس لیے بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں میں مستعمل ہے۔ زبانوں کو کسی مذہب سے جوڑنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ اور اردو تو خاص طور پر پیار محبت کی زبان ہے۔ وہ اپنی شیرینی و لطافت سے دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اردو کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسی کوششیں آزادی سے قبل بھی ہوئی ہیں اور آزدای کے بعد بھی اور آج بھی ہو رہی ہیں۔ بعض مخصوص حلقے اسے مسلمانوں کی زبان بتا کر تختہ مشق بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کے گلے میں ایک خاص مذہب کا طوق لٹکانے کوشش ہوتی رہی ہے۔ اس زبان کو آئینی و قانونی تنازعات میں بھی پھنسانے کی کوششیں کی گئیں اسے عدالتی کٹہرے میں ایک ملزم کی طرح کھڑا کیا گیا لیکن فاضل جج حضرات نے اس کے حق میں فیصلہ صادر کرکے اس پر لگائی جانے والی تہمتوں کے داغ دھو دیے۔

اس تسلسل میں سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کو تاریخ ساز کہا جا سکتا ہے۔ اس نے اردو کے حق میں ایک غیر معمولی فیصلہ سنا کر اردو مخالفین کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے یہ کہہ کر کہ، اردو کوئی اجنبی زبان نہیں بلکہ ہندوستان میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور یہ کہ زبان کسی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ وہ کسی کمیونٹی، کسی خطے اور عوام سے تعلق رکھتی ہے، اردو کو مذہبی، لسانی اور آئینی تناظر میں عدالتوں میں گھسیٹنے کی کوششوں کی نفی کر دی ہے۔

یہ مقدمہ مہاراشٹر کے ضلع اکولہ کی پاتور میونسپل کونسل کی ایک سابق رکن مسز ورشا تائی زوجہ سنجے بگاڈے نے ریاستی حکومت کے خلاف دائر کیا تھا۔ انھوں نے میونسپل کونسل کی نئی عمارت پر نصب کیے جانے والے بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھنے کی مخالفت کی تھی۔ ان کی دلیل تھی کہ کونسل کا کام کاج صرف مراٹھی میں ہوتا ہے لہٰذا اردو کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہاں تک کہ سائن بورڈ پر بھی نہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے میونسپل کونسل میں مقدمہ پیش کیا جس نے 14 فروری 2020 کو اکثریت سے یہ اعتراض مسترد کر دیا اور کہا کہ سائن بورڈ پر اردو کا استعمال بالکل جائز ہے۔ اس کے بعد ورشا تائی نے ”مہاراشٹر میونسپل کونسل نگر پنچایت اینڈ انڈسٹریئل ایکٹ 1965“ کے تحت اکولہ کے ضلع کلکٹر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ انھوں نے ان کی دلیل تسلیم کی اور حکم دیا کہ بورڈ پر صد فیصد مراٹھی لکھی جائے۔ کونسل کے بعض اراکین نے ڈویژنل کمشنر امراوتی کے سامنے اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ ڈویژنل کمشنر نے کلکٹر کے فیصلے کو رد کر دیا۔ اس کے بعد ورشا تائی بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ میں اپنا مقدمہ لے کر پہنچ گئیں۔ میونسپل کونسل کے ارکان نے ان کے دلائل کی رد میں اپنے دلائل دیے جنھیں عدالت نے تسلیم کیا۔ اس نے تمام قانونی پہلوو ¿ں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد 30 مئی 2021 کو ورشا تائی کے دلائل کو مسترد کر دیا اور یہ کہتے ہوئے عرضداشت خارج کر دی کہ آئین ہند کے آٹھویں شیڈول کی انٹری نمبر 22 کے مطابق اردو کو زبانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ یہ عدالت اس درخواست کو قابل اعتنا سمجھے۔ لہٰذا اسے خارج کیا جاتا ہے۔ درخواست دہندہ نے اسی عدالت میں ”اسپیشل لیو پٹیشن“ داخل کرکے اس فیصلے کو چیلنج کیا اور عدالت نے 10 اپریل 2024 کو دوبارہ اسے خارج کر دیا۔ اس کے بعد ورشا تائی نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بینچ نے تمام آئینی، قانونی اور تاریخی پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے ورشا تائی کی درخواست مسترد کر دی۔ اس نے اپنے فیصلے میں متعدد خوبصورت باتیں کہی ہیں۔ اس نے فیصلے کا آغاز برطانیہ میں مقیم ایک اینگلو الجزائری مصنف، مترجم اور محقق مولود بن زادی کے اس قول سے کیا ہے کہ ”جب آپ کوئی زبان سیکھتے ہیں تو آپ صرف ایک زبان بولنا اور لکھنا نہیں سیکھتے بلکہ آپ انسانیت کے تئیں فراخ دلی، آزاد خیالی، تحمل اور رحم دلی بھی سیکھتے ہیں۔“ بینچ نے اپنے فیصلے میں آگے کہا کہ ہمارا یہ نظریہ بالکل واضح ہے کہ زبان مذہب نہیں ہے۔ وہ مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبان کسی برادری، خطے اور عوام سے تعلق رکھتی ہے مذہب سے نہیں۔ زبان ثقافت ہے۔ وہ کسی بھی کمیونٹی یا عوام کی تہذیبی و ثقافتی پیش رفت کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے۔ جہاں تک اردو کی بات ہے تو وہ گنگا جمنی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ لیکن زبان کا بنیادی مقصد اسے سیکھنے سے قبل ہمیشہ مواصلات یا رابطہ کاری رہا ہے۔

فیصلے کے مطابق ہمیں اپنے لسانی تنوع کا احترام کرنا اور اس سے خوش ہونا چاہیے۔ عدالت نے 2001 کی مردم شماری کے حوالے سے کہا کہ ہندوستان میں مجموعی طور پر 122 بڑی زبانیں ہیں۔ جن میں 22 شیڈولڈ زبانیں ہیں (یعنی وہ آئین میں درج ہیں)۔ ملک میں 234 مادری زبانیں ہیں۔ اردو ہندوستان میں مندرج زبانوں میں چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مندرج زبانوں میں انگریزی نہیں ہے کیونکہ وہ غیر ملکی زبان ہے۔اس لسانی تنوع کے ساتھ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا کثیر لسانی ملک ہے۔

عدالتی بینچ نے آئین ساز اسمبلی میں اردو کے سلسلے میں ہونے والی بحث کا حوالہ دیا اور کہا کہ کون سی زبان مواصلات کی اور پورے ملک کی اور قومی زبان قرار دی جائے، یہ بات پیچیدہ بحث کے طور پر سامنے آئی تھی۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ زبان صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ ثقافت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس صورت حال نے زبان کے سلسلے میں بحث کو حساس اور پیچیدہ بنا دیا۔ ہم ہندوستانیوں نے اس مسئلے کو حل کرنے میں بہت دشواری اٹھائی ہے۔ بالآخر طویل بحث و مباحثے کے بعد آئین ساز اسمبلی کے ارکان اس بات پر متفق ہوئے کہ ہندی یونین آف انڈیا کی راج بھاشا یا سرکاری زبان ہوگی اور انگریزی کو پندرہ سال تک (سرکاری کام کاج میں) استعمال کیا جائے گا۔ تاہم پارلیمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ چاہے تو اس مدت میں توسیع کر دے۔ …. مختلف ریاستوں نے عملی ضرورت کے تحت سرکاری زبان میں کوئی دوسری زبان بھی شامل کی۔ جو ریاستیں یا مرکز کے زیر انتظام علاقے ایک سے زائد سرکاری زبان رکھتے ہیں یا سرکاری کام کاج کے لیے ایک سے زائد زبانوں کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، گوا، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرالہ، مہاراشٹر، منی پور، میگھالیہ، میزورم، اڑیسہ، پنجاب، راجستھان، سکم، تمل ناڈو، تیلنگانہ، تریپورہ، اترپردیش، اتراکھنڈ، مغربی بنگال، انڈمان و نکوبار، دادر اور نگر حویلی اور دمن دیو، دہلی، جموں و کشمیر، لداخ اور پانڈیچری۔ ان میں سے چھ ریاستوں آندھرا پردیش، بہار، جھارکھنڈ، تیلنگانہ، اترپردیش اور جموں و کشمیر میں سرکاری کام کاج کے لیے اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں 28 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام آٹھ خطے ہیں۔

 اردو مخالفین کا طبقہ عام طور پر اردو کو غیر ملکی زبان قرار دیتا ہے۔ حالانکہ یہ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہے۔ یہ غلط فہمی، خیال یا تصور تعصب کی بنیاد پر ہے نہ کہ حقیقی بنیاد پر۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں اس تعصب کو نشان زد کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی کی بنیاد پر ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی زبان ہے۔ یہ خیال بالکل باطل ہے۔ اردو مراٹھی اور ہندی کی طرح ہند آریائی زبان ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو اسی سرزمین میں پیدا ہوئی۔ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے عوام کی ضرورت کی وجہ سے، جو کہ آپس میں تبادلہ خیالات اور رابطہ چاہتے تھے، ہندوستان میں پلی بڑھی اور پھلی پھولی۔ اس نے صدیوں میں زیادہ تطہیر حاصل کی اور بہت سے مشہور شعرا کی پسندیدہ زبان بن گئی۔

عدالت نے زبان کے سلسلے میں عوامی بحث کو بھی اپنے دائرہ تحریر میں رکھا۔ اس نے اس بات کو اجاگر کیا کہ یہ بحث آزادی سے قبل چھڑ گئی تھی۔ جنگ آزادی کے دوران ہندوستانی زبانوں کے استعمال کی ضرورت پہچانی گئی۔ ہندوستانیوں کے بہت بڑے طبقے نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ زبان جو ہندی، اردو اور پنجابی جیسی مختلف زبانوں کے اشتراک سے بنی ہے اور جسے ملک کا بہت بڑا طبقہ بولتا ہے وہ ”ہندوستانی“ ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے 1932 میں کوکاناڈا (کاکی ناڈا) کے اپنے اجلاس میں اپنے آئین میں ترمیم کی اور کہا کہ کانگریس اپنی کارروائی میں ہندوستانی، انگریزی اور صوبائی زبانوں کا استعمال کرے گی۔ اس اجلاس میں یہ عہد و پیمان کیا گیا کہ سوراج تمام برادریوں کا ہدف ہے۔ اس عہد و پیمان نے ’ہندوستانی‘ کو ہندوستان کی قومی زبان تسلیم کیا۔ کانگریس کے آئین میں 1934 میں یہ بات شامل کی گئی کہ پارٹی کی تمام کارروائیاں ’ہندوستانی‘ میں ہونی چاہئیں۔ ہندوستان کے موجودہ آئین کی طرح کانگریس کے آئین میں بھی یہ انتظام کیا گیا کہ اگر مقرر ’ہندوستانی‘ زبان نہیں بول سکتا تو وہ کسی بھی صوبائی زبان میں گفتگو کرے یا کانگریس صدر اس کو ایسا کرنے کی اجازت دیں۔

ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی اپنے ایک مضمون میں ’ہندوستانی‘ کا ذکر کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس مضمون کے ایک اقتباس کو شامل کیا ہے جس میں پنڈر نہرو نے کہا ہے کہ مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 222 زبانیں یا بولیاں ہیں۔ امریکہ کی مردم شماری میں بڑی تعداد میں زبانوں کا ذکر ہے۔ جرمن مردم شماری میں ساٹھ سے زائد زبانوں کا ذکر ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر زبانیں یا تو چھوٹے طبقات میں بولی جاتی ہیں یا وہ محض بولیاں ہیں۔ ہندوستان میں عوامی سطح پر تعلیم کے فقدان کی وجہ سے بولیاں پیدا ہوئیں۔ تاہم جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے ہندوستان ایک اکائی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وسیع ہندوستان میں درجنوں زبانیں ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے دو زمرے ہیں۔ ایک شمال، وسطی اور مغربی خطے کی انڈو آرین زبانیں اور دوسرے مشرق اور جنوب کی دراوڑ زبانیں۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ’ہندوستانی‘ (ہندی یا اردو)ہے جو کہ کروڑوں لوگ بولتے ہیں اور کروڑوں اس کو جزوی طور پر سمجھتے ہیں۔ یہ زبان بڑی صوبائی زبانوں کو بے دخل کیے بغیر دوسری زبان کے طور پر رابطے کی کل ہند زبان بننے کی اہل ہے۔ سنیما اور ریڈیو کی بدولت ’ہندوستانی‘ کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ناچیز کو متعدد مواقع پر پورے ملک میں لوگوں سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے اور تقریباً جنوب کو چھوڑ کر اس نے ہر جگہ ’ہندوستانی‘ میں گفتگو کی اور سب نے اسے سمجھا۔

جسٹس دھولیا اور جسٹس ونود چندرن نے اپنے فیصلے میں آئین ساز اسمبلی میں کی جانے والی پنڈت نہرو کی تقریر کے ایک اقتباس کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ سرکاری زبان ہندی میں اردو کے الفاظ داخل کرکے اسے لسانی اعتبار سے مالا مال کیا جائے گا۔ ان کے بقول ہم بعض قسم کے موضوعات پر ہندی میں بہتر بولتے ہیں اور بعض دیگر قسم کے موضوعات کے لیے اردو بہتر ہے۔ زبان کے استعمال کا انحصار موضوعات پر ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ہندی کو، جو کہ ہماری سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت سے پروان چڑھ رہی ہے، مضبوط کرتی ہیں۔

عدالتی بینچ نے عوامی سطح پر اردو زبان کے وسیع تر استعمال کی نشان دہی کی اور کہا کہ آج بھی عوام جو زبان بولتے ہیں اس میں اردو کے الفاظ کی بھرمار ہے۔ یہاں تک کہ جو اردو نہیں جانتے وہ بھی اردو کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی بھی شخص اردو کے الفاظ یا اردو سے اخذ کیے گئے الفاظ کے استعمال کے بغیر یومیہ تبادلہ خیالات نہیں کر سکتا۔ لفظ ’ہندی‘ خود فارسی لفظ ’ہندوی‘ سے نکلا ہے۔ یہ بہاو دوطرفہ ہے۔ اردو نے بھی سنسکرت سمیت دیگر زبانوں کے بہت سے الفاظ کو اخذ کیا ہے۔

بڑی تعداد میں اردو کے الفاظ کورٹ کچہری اور پولیس تھانوں میں بھی مستعمل ہیں۔ اگر ہم ماضی قریب یا بعید کی عدالتوں کی دستاویزات کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ ان کی زبان مکمل طور پر اردو ہے۔ آج بھی جبکہ بہت سے الفاظ کے ہندی متبادل استعمال ہو رہے ہیں اردو کے الفاظ کے کثرت ہے۔ عدالتی کاغذات انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندی رسم الخط میں بھی تیار کیے جاتے ہیں اور ان میں اردو کے الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔ اسی طرح پولیس اسٹیشنوں میں درج کی جانے والی رپورٹوں میں بھی اردو کے الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔ پولیس کسی وقوعے کے سلسلے میں جو پنچ نامہ تیار کرتی ہے اس میں بھی اردو کے بے شمار الفاظ ہوتے ہیں۔ حالانکہ دہلی ہائی کورٹ نے چند سال قبل پولیس تھانوں میں استعمال ہونے والی عربی و فارسی آمیز زبان کی جگہ پر آسان زبان کے استعمال کی ہدایت دی تھی۔ تھانوں میں اس زبان کا استعمال انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے۔ پولیس محکمہ میں بھرتی ہونے والوں کو ان الفاظ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اسی طرح عدالتی کارروائیوں میں بھی اردو کے الفاظ کی بھرمار ہے۔ متعدد جج حضرات ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اپنے فیصلوں میں اردو کے بیشتر الفاظ تو استعمال کیے ہی، بہت سے برمحل اشعار کا بھی استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے۔ لہٰذا انھوں نے کہا کہ عدلیہ میں اردو کے الفاظ کے خاصے اثرات ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے عدالت، حلف نامہ، وکالت نامہ، دستی اور پیشی وغیرہ کی مثال دی۔ انھوں نے یہ بات واضح کی کہ گو کہ دستور کی دفعہ 348 کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کی سرکاری زبان انگریزی ہے لیکن آج بھی عدالتوں میں اردو کے بے شمار الفاظ مستعمل ہیں۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا آئین کی دفعہ 120 کے تحت پارلیمنٹ کی سرکاری زبان ہندی یا انگریزی ہے لیکن وہ ایوان کے صدر کو یہ اختیار دیتی ہے کہ اگر کوئی رکن ہندی یا انگریزی میں بولنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی مادری زبان میں خطاب کر سکتا ہے۔ ریاستی اسمبلیوں میں بھی یہی اصول اپنایا گیا ہے۔ عدالت کے خیال میں اردو پر تنقید دراصل ہندی پر بھی تنقید ہے۔ کیونکہ ماہرین لسانیات اور ادبا و شعرا کے مطابق ہندی اور انگریزی دو زبانیں نہیں بلکہ ایک زبان ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اردو نستعلیق میں لکھی جاتی ہے اور ہندی دیو ناگری میں۔ لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ رسم الحظ زبان نہیں بناتا۔ بلکہ صرف و نحو، گرامر اور صوتی آہنگ سے زبان بنتی ہے۔ اس معاملے میں ہندی اور اردو ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ فاضل جج حضرات نے اپنے فیصلے میں اردو کے معروف نقاد گیان چند جین کے ایک مضمون ’اردو، ہندی یا ہندوستانی‘ کے ایک اقتباس کو جو کہ مجلہ ’ہندوستانی زبان‘ کے جنوری تا اپریل 1974 کے شمارے میں شائع ہوا تھا، شامل کیا ہے۔ اقتباس کے مطابق ’یہ بالکل واضح ہے کہ اردو اور ہندی دو الگ الگ زبانیں نہیں ہیں۔ ان کو دو زبانیں کہنا لسانیات کے تمام اصولوں کو جھٹلانا ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ اردو اور ہندی ادب دو الگ الگ اور آزاد ادب ہیں لیکن اردو اور ہندی دو الگ زبانیں نہیں ہیں۔ ہندوستانی آئین میں دونوں کو الگ الگ شمار کرنا سیاسی مصلحت ہے لسانی حقیقت نہیں‘۔ ججوں نے اس اقتباس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گیان چند جین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ آئین میں اردو اور ہندی کو الگ الگ مانا گیا ہے لیکن ان کے خیال میں سیاسی مجبوری یا مصلحت کے تحت ایسا کیا گیا نہ کہ لسانی سچائی کے تحت۔ اس تعلق سے انھوں نے ہندی ادیب اور کہانی نویس امرت رائے، معروف ہندی اسکالر رام ولاس شرما اور بابائے اردو ڈاکٹر عبد الحق کے اقتباسات کی مثالیں بھی دی ہیں۔

فیصلے میں ہندوستان کے سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹ چلیا کی اس تقریر کا اقتباس بھی شامل کیا گیا ہے جو انھوں نے دہلی میں منعقدہ ایک سمینار میں کی تھی۔ انھوں نے اردو کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں اردو زبان کو خاص مقام حاصل ہے۔ اردو زبان جوڑتی ہے۔ یہ صوفی ازم کی عظمتوں کی پراسراریت سے لے کر رومانیت، بھائی چارے کے مہک، زندگی کی اداسی اور انسانی ر شتوں تک کے جذبات و خیالات کو جنم دیتی ہے۔ اردو اس ملک کی صرف ایک زبان نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک تہذیب ہے، ایک ثقافت ہے۔ آج اس بات کی شدید ثقافتی ضرورت ہے کہ اس کی بقا کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اردو ثقافت کی زرخیزی اور ماضی کی اس کی عظمت کی بحالی کی ضرورت ہے۔

جبکہ آخر میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہماری بد گمانیوں کو، جو کہ شاید اس زبان کے تعلق سے تعصب پر مبنی ہے، حقیقت کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے۔ ہماری طاقت کبھی بھی ہماری کمزوری نہیں بن سکتی۔ ہمیں اردو اور تمام زبانوں کا دوست بننا چاہیے۔ بالکل آخر میں فاضل جج حضرات نہ یہ کہتے ہوئے اردو زبان کے بارے میں معروف شاعر اقبال اشہر کی اس نظم کے اشعار پیش کیے ہیں کہ اگر اردو بول سکتی تو یہی کہتی:

اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں جانا

دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

 بہرحال سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جہاں تاریخ ساز ہے اور بہت سی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرتا ہے وہیں اس سے امید کی کرن بھی پھوٹتی ہے۔ یہ فیصلہ اردو مخالفین کے لیے ایک آئینہ ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اس آئینے میں اپنے نقطہ نظر کا جائزہ لیں اور اردو کے حوالے سے اپنی رائے درست کریں

Click to listen highlighted text!