کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ تازہ ترین رجحانات کے مطابق پارٹی 138 سیٹوں پر آگے ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی 65 سیٹوں پر آگے ہے۔ جنتا دل سیکولر 21 سیٹوں پر آگے ہے۔ دیگر 4 سیٹوں پر آگے ہیں۔
کل 224 نشستوں میں سے اب تک 62 کے نتائج کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ان میں کانگریس کو 38 اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو 15 سیٹیں ملیں۔ جنتا دل سیکولر نے 6 اور دیگر نے 3 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
کرناٹک کانگریس لیجسلیچر پارٹی کی میٹنگ کل بنگلورو میں ہوگی۔
بڑے امیدواروں میں وزیراعلیٰ اور بی جے پی کے امیدوار بسواراج بمبئی شیگاؤں سیٹ پر آگے ہیں۔ بی جے پی کے وجےندرا یدی یورپا شکاری پورہ اور گوکاک میں رمیش جارکی ہولی آگے چل رہے ہیں، جب کہ پارٹی کے سی ٹی روی چکمگلور میں پیچھے ہیں۔ کانگریس امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا ورنا سیٹ پر آگے ہیں۔ کانگریس کے ڈی کے۔ شیوکمار بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ پارٹی کے پریانک کھرگے چٹا پور حلقہ سے آگے چل رہے ہیں، جبکہ کانگریس کے جگدیش شیٹر ہبلی دھارواڑ سنٹرل سیٹ پر پیچھے چل رہے ہیں۔ ایچ ڈی کماراسوامی چناپٹن سیٹ پر آگے ہیں۔
سبکدوش ہونے والی اسمبلی میں حکمراں بی جے پی کے پاس ایک سو 16، کانگریس کو 69، جنتا دل سیکولر کو 29،
بہوجن سماج پارٹی کو ایک جبکہ دو آزاد ایم ایل اے تھے۔
کرناٹک کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ اور بی جےپی لیڈر بسواج سوماپا بومئی نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا “ہم نشان تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اس کے باوجود کہ وزیرِ اعظم سے لے کر عام بی جے پی کارکن نے ان انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے بھرپور کوشش کی تھی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کرناٹک اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کو اپنے آپ پر حاوی نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس مشکل صورتِ حال سے بہتر انداز میں باہر آنے کا مکمل حوصلہ رکھتے ہیں۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھی شیک منو سنگھوی نے کہا کہ کانگریس پارٹی ایک جامع جیت کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان انتخابات کے نتائج 2024میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے رجحان ساز نہیں ہوں گے بلکہ وہ ایک الگ اور بڑا معرکہ ہوگا۔
ان انتخابات میں اصل مقابلہ بی جے پی، کانگریس اور جنتا دل سیکیولر (جے ڈی ایس) کے درمیان ہی ہو رہا ہے اگرچہ عام آدمی پارٹی نے بھی جو دہلی اور ریاست پنجاب میں بر سرِ اقتدار ہے انتخابات میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی ہے۔
ان کے علاوہ دلت لیڈر مایا وتی کی قیادت میں بہوجن سماج پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اور درجنوں آزاد امیدوار بھی میدان میں اترے تھے۔
یہ اسمبلی انتخابات بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے انتہائی اہم ہیں کیوں کہ بھارت کے کئی سیاسی مبصرین کی رائے میں کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھارت میں اگلے برس ہونے والے عام انتخابات کے لیے رجحان ساز ثابت ہو سکتے ہیں۔
کئی ہفتے تک جاری رہنے والی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس کے چوٹی کے لیڈروں نے روڑ شوز، ریلیوں اور عوامی جلسوں کا انعقاد کیا تھا اور اس کے علاوہ گھر گھر جا کر رائے دہند گان کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
بی جے پی جس نے 2018 میں منعقد کرائے گئے اسمبلی انتخابات میں 104نشستیں حاصل کرکے زمامِ اقتدار سنبھال لی تھی کی انتخابی مہم کو فعال بنانے کے لیے خود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پیش پیش نظر آئے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو امید تھی کہ ان کی کرشماتی شخصیت اور قوی اور فعال مہم ہی ریاست میں گزشتہ 38 برس کے دوران ، ہر اسمبلی انتخاب کے دوران نظر آئے حکومت مخالف رجحان کو توڑے میں کامیاب ہو گی اور پارٹی ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوبارہ حکومت بنا لے گی۔
بی جے پی کے مقابلے میں جے ڈی ایس کی انتخابی مہم نسبتاً کم جارحانہ تھی ۔ پارٹی نے اپنی مہم کے دوران جس کی قیادت سابق وزیرِ اعلیٰ ایچ ڈی کماراسوامی نے کی زیادہ تر مقامی اہمیت کے معاملے اٹھائے اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ ریاست میں ایک صاف ستھری حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں متحرک رہے گی اور کرپشن سمیت ہر قسم کی بدعنوانیوں سے پاک ہوگی۔
کانگریس نے ریاست میں گزشتہ پانچ سال کے دوراں بی جے پی کی حکومت کی “مایوس کن” کارگردگی کو خوب اچھالا اور قومی سطح کے معاملات کے حوالے سے بھی پارٹی کو ویلن ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اس کی انتخابی مہم کی قیادت میں سابق وزیرِ اعلیٰ سدھار میا، کرناٹک میں کانگریس پارٹی کے صوبائی صدر ڈی کے شیو کمار اور ملکارجن کھڑگے جو کانگریس پارٹی کے قومی صدر ہیں پیش پیش تھے۔
انتخابی مہم کے آخری مرحلے پر کانگریس کے صدر ارجن کھرگے نے اپنی ہوم اسٹیٹ کرناٹک کے عوام سے یہ جذباتی اپیل کی تھی کہ وہ ڈھلتی عمر کے دورسے گزر رہے ہیں اور ان کی جان کو بی جے پی سے خطرہ ہے۔
دوسری جانب پارٹی کے لیڈروں راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی ودرا نے ریاست کے طول و عرض میں کئی ہفتے گزارے اور رائے دہندگان بالخصوص نوجوان ووٹروں کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی۔
مودی نے 29 اپریل کو شروع کی گئی اپنی مہم کے دوران 20 سے زیادہ عوامی جلسوں سے خطاب کیا اور نصف درجن روڑ شوز کیے۔ اُن کا انتخابی نعرہ “اس بار کا فیصلہ : اکثریتی بی جے پی حکومت” تھا۔
اس کے علاوہ بی جے پی نے زیادہ تر قومی اہمیت کے معاملات اٹھائے اور وفاقی حکومت کے ان پروگراموں اور اسکیموں کو اپنی کامیابیوں کے طور پر ووٹروں کے سامنے پیش کیا جن کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہے اورملک کو ایک اقتصادی طاقت اور ویشو گرو یا عالمی پیشوا بنانا ہے۔