عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے کینسر سے متعلق تحقیقی ادارے ‘آئی اے آر سی’ نے بتایا ہے کہ چھاتی کے کینسر کی بروقت نشاندہی کا بڑی حد تک تعین اس بات سے ہوتا ہےکہ مریض کہاں رہتا ہے۔

ادارے کی نئی تحقیق کے مطابق ذیلی صحارا افریقہ میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے والی تقریباً ایک تہائی خواتین کو اس مرض کا علم اس وقت ہوتا ہے جب ان کے جسم میں مرض کی شدت آخری درجے پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔

Image

اس وقت یہ کینسر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا ہوتا ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو یورپ اور شمالی امریکہ میں ایسی خواتین کی تعداد صرف دس فیصد ہے جنہیں اس مرض کا بروقت علم نہیں ہو پاتا۔

جامع تحقیق

اس تحقیق کے لیے دنیا کے 81 ممالک میں تقریباً 20 لاکھ خواتین کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ سامنے آیا کہ مرض کی بروقت تشخیص کے حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں کے حالات میں نمایاں فرق ہے۔

اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جن خواتین کا کمتر سماجی معاشی درجے سے تعلق ہو انہیں بروقت اس مرض سے آگاہی ملنے کا امکان کم ہوتا ہے۔

اس ضمن میں عمر کے اعتبار سے بھی فرق پایا گیا ہے۔ تاخیر سے اس مرض کے بارے میں آگاہی پانے والی معمر خواتین کی تعداد 34 فیصد ہے جبکہ نوجوان لڑکیوں میں یہ شرح 16 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

آگاہی کا فقدان

ان نتائج کا تعلق مرض کی علامات کے بارے میں زیادہ آگاہی نہ ہونے اور مریضوں کا بیک وقت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونے سے بھی ہو سکتا ہے۔

چھاتی کا کینسر دنیا بھر میں اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور خواتین کی کینسر سے اموات کی بھی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔

‘ڈبلیو ایچ او’ نے چھاتی کے کینسر سے اموات میں کمی لانے کے لیے ممالک سے کہا ہے کہ وہ کم از کم 60 فیصد خواتین کے لیے ابتدائی مرحلے میں ہی اس مرض کی تشخیص ممکن بنانے کی کوششوں میں اضافہ کریں جس کے لیے تشخیصی صلاحیتوں اور معلومات جمع کرنے کے انتظام میں سرمایہ کاری درکار ہو گی۔