NEWS DESK

افغانستان میں طالبان نے نئی ملکی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے، جس کے سربراہ ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا حسن اخوند ہوں گے۔ طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اس عبوری حکومت کے نائب سربراہ ہوں گے۔


حسن اخوند کا نائب ملا عبدالغنی برادر کو بنایا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ نئی ملکی حکومت میں شمولیت کے لیے تمام نامزدگیاں عبوری بنیادوں پر کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ عبوری دور کب تک جاری رہے گا اور آیا عبوری مدت کے اختتام پر ملک میں الیکشن بھی کرائے جائیں گے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نئی ملکی حکومت کی قیادت ملا حسن اخوند کو سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ملا حسن اخوند ماضی میں طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ وہ طالبان کے دور اقتدار کے آخری برسوں میں بھی کابل میں ملکی حکومت کے سربراہ تھے۔

ملا محمد حسن اخوند اس وقت طالبان کی طاقتور فیصلہ ساز رہبری شوریٰ کے سربراہ ہیں۔ ان کا تعل قندھار سے ہے جہاں سے طالبان کا بھی آغاز ہوا تھا۔ وہ طالبان کی مسلح تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔
’انہوں نے 20 سال رہبری شوریٰ کے سربراہ کے طور پر کام کیا اور اپنی معتبر ساکھ قائم کی۔ وہ عسکری پس منظر نہیں رکھتے بلکہ مذہبی رہنما ہیں اور اپنے کردار اور دین داری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ملا حسن اخوند 20 سال سے شیخ ہیبت اللہ کے قریب رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملا حسن طالبان کی سابقہ حکومت میں اہم عہدوں پر کام کرچکے ہیں، انہیں پہلے وزیر خارجہ بنایا گیا اور جب ملا محمد ربانی وزیراعظم تھے تو انہیں نائب وزیراعظم بنایا گیا۔

اس کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے بانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کو نیا ملکی وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

نئی افغان حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر ملا محمد یعقوب کا انتخاب کیا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں۔

قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی ہوں گے۔

طالبان کے مرکزی رہنما کا کردار غیر واضح
ذبیح اللہ مجاہد نے اس بارے میں کچھ نہ کہا کہ نئی افغان حکومت میں طالبان تحریک کے مرکزی رہنما ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کا ممکنہ کردار کیا ہو گا۔

طالبان کا پنجشیر پر بھی ‘قبضہ’ کر لینے کا دعویٰ

طالبان نے کابل میں مغربی دنیا کے حمایت یافتہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف پیش قدمی کرتے ہوئے ملکی دارالحکومت پر گزشتہ ماہ کے وسط میں قبضہ کر لیا تھا اور اس سے کچھ ہی دیر قبل اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ تب سے اب تک ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نہ تو منظر عام پر آئے ہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے عوامی سطح پر کچھ کہا گیا ہے۔

حکومتی اعلان سے ملنے والا شارہ
خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان کی طرف سے حکومت سازی کے اعلان کے بعد کابل سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ سخت گیر اسلامی سوچ کی حامل طالبان تحریک نے اپنی صفوں میں سے جن افراد کا حکومتی عہدوں کے لیے انتخاب کیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی حکومت سے کسی چھوٹ کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے۔

اس کے ایک ثبوت کے طور پر روئٹرز نے لکھا ہے کہ آج ہی کابل میں نئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان کیا گیا اور آج ہی دارالحکومت میں طالبان کے ارکان نے چند مختلف احتجاجی ریلیوں کے شرکاء کو منشتر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ ان احتجاجی ریلیوں میں سے ایک میں اکثریت خواتین مظاہرین کی تھی۔

طالبان کی بار بار کرائی جانے والی یقین دہانی
کابل پر قبضے کے بعد سے طالبان کی طرف سے بار بار افغان عوام اور بیرونی دنیا کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ مستقبل میں ہندو کش کی اس ریاست کو دوبارہ اس جبر اور بربریت کی طرف نہیں لے جائیں گے، جس کا مظاہرہ انہوں نے دو عشرے قبل اپنے پہلے دور اقتدار کے خاتمے تک کیا تھا۔

تب انتہائی سخت سزائیں متعارف کرا دی گئی تھیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی جبکہ خواتین کو بھی عوامی زندگی میں حصہ لینے سے عملاﹰ روک دیا گیا تھا۔